نئی دہلی :
اے بی پی نیوز چینل کی روبیکا لیاقت وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت میں سامنے آئیں تو انہیں کرار جواب ملا، اسی نیوز چینل کے ان کے ساتھی صحافی نے کہا :’ میں یہ نہیں کہتا کہ وزیر اعظم جدوجہد میں جیل نہیں گئے ہوں گے، لیکن میں یہ 1000 فیصد دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے گجراتی زبان میں لکھی ’’سنگھرشما گجرات‘ نہیں پڑھی ہوںگی، لیکن میں نے 227 صفحات پر مشتمل ہندی ترجمہ دوبارپڑھاہوں۔ پوری کتاب 1975 کی ایمرجنسی پر ہے ، اس میں 1971 کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
در اصل یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب وزیر اعظم مودی نے ڈھاکہ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے جدوجہد میں شامل ہونا میری زندگی کی پہلی تحریکوں میں سے ایک تھی۔ میری عمری 20-22 سال رہی ہو گی جب میں نے اور میرے کئی ساتھیوں نے بنگلہ دیش کے لوگوں کی آزادی کے لیے ستیہ گرہ کیا تھا۔موجودہ وقت میں مغربی بنگال میں انتخابات ہورہے ہیں۔ اس لئے پی ایم کے بیان کو لے کر تنازع شروع ہوگیا۔
روبیکا نے وزیر اعظم کی بات کی تائید کرتے ہوئے ٹیوئٹ کیا تھا کہ آپ کے بقول ، ’وزیر اعظم مودی کے کوئی سوانح نگار بھی اس کا ذکر تک نہیں کرپائے‘۔ آپ کے مطالعہ نے یہ نہیں بتایا ہوگا کہ اس کا ذکر تو پی ایم نے خود کردیا تھا اپنی کتاب میں جو انہوں نے 1978 میں لکھی تھی … زیادہ جانکاری لینے کے لیے @kanchanGuptaجی سے رابطہ کرنے میں شرم محسوس نہیں کریں گے۔ ابھینو نے پی ایم مودی کے بیان کاحوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم تھی۔ پی ایم مودی کے کوئی سوانح نگار بھی اس ذکر نہیں کرپائے۔‘
ابھینیو نے ان پر طنز کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ، میں اس دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بی جے پی کے تمام رہنماؤں اور تمام دانشور لوگ بھی اس کتاب کو کھول کر دیکھے تک نہیں ہوںگے، اگر وہ دیکھتے تو وہ اس کتاب کو بطور’ ‘ٹول کٹ‘ استعمال نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے آپ بھی اس ’ٹول کٹ‘ کا شکار ہیں۔ اس نے مزید لکھا ، میں پڑھتا -لکھتا رہتا ہوں ، شرم کرنے کی ضرورت مجھے نہیں پڑے گی۔
اس سے قبل ابھینیو نے ٹویٹ کیا ، میری پہنچ کم ہے ، فالورز کم ہیں ، لہٰذا لوگ کم پڑھیں گے۔آپ کو زیادہ پڑھتے ہیں ۔ آپ جو کہیں گی وہاٹس ایپ یونیورسٹی اور ٹیویٹر یونیورسٹی میں سچ مانا جائے گا۔ پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ پی ایم مودی نے 1971 کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، معاف کریئے گا جواب دینے میں دیر ہوئی کیونکہ کتاب ہی پڑھ رہا تھا۔ ابھینیو کا کہنا تھا ، ویسے ایک بات اور بتادوں اس ’ٹول کٹ‘ کے فرسٹ پونیٹر ، بگا جی نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ غلط کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں ، کیونکہ پوری کتاب 1975 کے ایمرجنسی پرمشتمل ہے۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ اس میں 1971 کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہاں ایک باب صحافت پر ضرور ہے۔