تحریر: علی حمدان
تلخیص و ترجمہ: دانش اصلاحی
سنہ 2026 کے آغاز کے ساتھ ہی عرب دنیا زوال کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ معاشی محاذ پر بیشتر عرب ممالک بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال کا شکار ہیں—مراکش اور دیگر شمال مغربی عرب ممالک سے لے کر مشرق میں یمن تک۔ مصر شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے، جب کہ سوڈان اور یمن مکمل مالیاتی انہدام کے قریب ہیں۔ حتیٰ کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں بھی ترقی کی رفتار کم ہو رہی ہے، اور لاکھوں غیر ملکی کارکنوں کی موجودگی کے باوجود بے روزگاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مقامی صنعتیں زوال کی جانب گامزن ہیں، زرعی اور غذائی شعبہ پسماندگی اور بیرونی انحصار کا شکار ہے، نوجوانوں اور خواتین میں بے روزگاری عام ہے، جبکہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں اپنا معیار کھو رہی ہیں۔ بیشتر عرب ممالک ناخواندگی کے مسئلے پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پائیدار ترقی کے منصوبے تعطل کا شکار ہیں، سرکاری اداروں کی کارکردگی کمزور ہے اور بدعنوانی میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ بڑے ترقیاتی اور ٹیکنالوجی کے شعبے غیر ملکی کمپنیوں کے تسلط میں ہیں۔
سیاسی میدان میں بھی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں۔ غزہ اور لبنان کی حالیہ جنگ نے پورے عرب خطے کی سیاسی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ یہ جنگ اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ عرب دنیا اسرائیلی جارحیت کے سامنے مؤثر مزاحمت سے قاصر ہے۔ حکمران طبقے اور عوام کے درمیان فاصلے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی صورتِ حال تشویشناک ہے؛ عرب ممالک کے شہری اپنے بنیادی شہری، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی اداروں میں سکیورٹی کے نام پر بڑھتا ہوا جبر، انصاف اور قانون کی حکمرانی کا فقدان، اور بدعنوانی و عدم شفافیت ایک عام حقیقت بن چکی ہے۔
عرب انسانی ترقی کی رپورٹس کے مطابق—جن کا اجرا 2002 میں ہوا—عرب خطہ انسانی ترقی کی راہ میں تین بڑی بنیادی رکاوٹوں سے دوچار ہے:
1. آزادیوں کا فقدان، بالخصوص سیاسی اور شہری حقوق کی کمی؛
2. خواتین کا محدود سماجی و معاشی کردار، جو حقوق کی ناہمواری اور کمزور شرکت کی صورت میں سامنے آتا ہے؛
3. انسانی صلاحیتوں اور علمی ترقی کا بحران، جو تعلیمی خلا اور سائنسی ایجادات کی کمی سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ باہم جڑی ہوئی رکاوٹیں ترقی کی مجموعی رفتار کو سست کرتی ہیں، بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہیں، اقتصادی نمو (ترقی کی شرح) کو محدود کر دیتی ہیں اور حکمرانی و سماجی استحکام کو کمزور بناتی ہیں۔
خلیجی ممالک میں رائج ’’دبئی ماڈل‘‘ پر مبنی موجودہ ترقیاتی حکمتِ عملی زیادہ تر نئی، پرتعیش شہری بستیاں اور بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر تک محدود ہے۔ اگرچہ یہ ماڈل کچھ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے، تاہم اسے پائیدار نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ یہ شہر بنیادی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاروں اور رہائشیوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، جن کی تعمیر و آبادکاری کے لیے ہزاروں غیر ملکی کارکنوں کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ان رہائشی اور تجارتی یونٹوں کی قیمتیں عام مقامی شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہ طرزِ سرمایہ کاری ٹریفک جام، ناقص عوامی نقل و حمل، خدماتی دباؤ اور مقامی آبادی کے حاشیے پر چلے جانے جیسے مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ان منصوبوں میں روزگار کے بیشتر مواقع بھی تارکینِ وطن کے حصے میں آتے ہیں۔
عرب ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستوں میں، ڈیجیٹل تبدیلی کے منصوبوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کے نتائج ہر جگہ یکساں نہیں، تاہم یہ عمل مجموعی طور پر سست روی کا شکار ہے اور بڑی حد تک غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے—جس کے نتیجے میں نہ صرف اقتصادی وابستگی بڑھتی ہے بلکہ ڈیجیٹل اور ریاستی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اس صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا عالمی درجۂ حرارت مستقبل میں عرب خطے کے بعض حصوں کو غیر رہائش پذیر بنا سکتا ہے، جبکہ پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔










