وارانسی کے مسلم اکثریتی علاقے میں سنبھل کی طرح مندر ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کے بعد علاقے میں سرگرمی بڑھ گئی ہے۔ سناتن رکھشک دل نے پولیس کو اس مندر کو کھولنے اور وہاں پوجا کرنے کی درخواست دی ہے۔ اس کی ملکیت کے بارے میں مندر سے متصل مکان کے مسلمان مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ان کی جائیداد ہے اور ان کے والد نے اسے 1931 میں خریدا تھا۔ اس مسلم فیملی نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی یہاں آکر مندر میں بغیر کسی ڈرامے کے پوجا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کا استقبال کرتے ہیں۔ دراصل وارانسی کے دشاشومیدھ تھانہ علاقے کے مدن پورہ میں گول چبوترا کے قریب مسلمانوں کے گھر سے متصل ایک مندر ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سدھیشور مہادیو کا مندر ہے اور تقریباً ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ لیکن یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بند ہے۔
اس دعوے کو لے کر سناتن رکھشک دل کی جانب سے تھانے میں درخواست بھی دی گئی تھی جس کے بعد پولیس انتظامیہ حرکت میں آئی اور مندر کے باہر حفاظتی انتظامات بڑھا دیے۔ انہوں نے کہا کہ مندر اور اس کے آس پاس کی زمین پر ایک مسلمان فیملی نے قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے اسے بند کر رکھا ہے تاکہ وہاں ہوجا نہ ہو سکے۔
تاہم مندر سے متصل مکان کے مسلمان مالکان اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1931 میں ان کے والد نے یہ جائیداد خریدی تھی جس میں ان کا گھر اور مندر بھی شامل تھا۔ یہی نہیں مسلم خاندان وقتاً فوقتاً مندر کی مرمت، صفائی اور پینٹنگ کا کام کرتا رہا ہے۔ مالک نے مندر میں آنے اور پوجا کرنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بھی بھکت یہاں آکر ہوجا پاٹھ تو اسے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے۔
مندر کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے مسلم فیملی کے محمد ذکی کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے یہ جائیداد 1931 میں لی تھی۔ اس پراپرٹی میں واقع مندر زیادہ تر وقت بند رہتا ہے۔ ایک بار مندر کو دیمک کی وجہ سے نقصان پہنچا۔ جب تھانے میں اطلاع دی گئی تو پولیس نے کہا کہ آپ اسے ٹھیک کروا لیں کیونکہ یہ آپ کے اپنے گھر میں ہے۔ اس وقت اندر دیکھا تو صرف ایک کمرہ تھا اور کچھ نہیں ملا۔ مرمت کے بعد دوبارہ تالا لگا دیا گیا۔ مسلم خاندان نے بتایا کہ یہاں ان کے والد اور چچا سمیت کل چار خاندان رہتے تھے۔ مجموعی طور پر تقریباً 24-25 لوگ ہوں گے۔ دستاویزات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کے بڑے چچا باہر رہتے ہیں، وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ مکان اور مندر کے کاغذات کہاں ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ مندر کو بند رکھا گیا ہے اور اس پر قبضہ کیا گیا ہے، سب غلط ہے۔ ہم اس مندر کے بھی مالک ہیں۔ اس پر قبضہ کر کے کیا کریں گے، ہمیں تھوڑی پوجا کرنی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے اردگرد ہندو آبادی ہے اور تمام لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ ساڑھی کا بازار ہے تو ہندو گاہک بھی آتے ہیں۔ بنارس میں سڑک کو چوڑا کرنے کے دوران کئی مندروں کو گرایا گیا، لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا۔ عقیدت ہے تو یہاں آکر پوجا کرو، کیا حرج ہے؟ ، ہماری طرف سے کوئی ممانعت نہیں۔خاندان کے ایک اور رکن نے بتایا کہ وہ بچپن سے مندر کے دروازے پر تالا دیکھتے آئے ہیں اور اب بھی موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ بہت باتیں کریں گے کہ پوجا جاری تھی لیکن اگر ایسا ہوتا تو ہم یہاں پینٹ کیوں کراتے؟ ممبر نے کہا کہ مندر پر قبضہ کرنے کا خیال بالکل غلط ہے، بنارس میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی یہاں درشن اور ہوجا کے لیے آتا ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن جھوٹے الزامات نہ لگائے جائیں۔ (میڈیا رپورٹس کے ان ہٹ کے ساتھ)