تحریر :ونیت کمار سنگھ
سماج وادی پارٹی کو جمعرات کو ہوئے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کی ووٹوں کی گنتی میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ایس پی کی کارکردگی کافی اچھی رہی ہے، لیکن وہ پھربھی بی جے پی سے کوسوں پیچھے رہ گئی ہے۔ ان انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے او پی ایس، مفت بجلی، سرکاری ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ جیسے کئی وعدے کیے، لیکن عوام پر اثر چھوڑنے میں ناکام رہی۔ سماج وادی پارٹی کے ووٹ شیئر میں بڑا اضافہ ہوا، لیکن بی جے پی کی اچھی کارکردگی نے اکھلیش یادو کی ہر کوشش کو خاک میں ملا دیا۔
اکھلیش کے علاوہ کسی بڑے چہرہ کا نہ ہونا:
سماج وادی پارٹی ایک اور چیز میں بی جے پی سے پیچھے رہ گئی اور وہ ہے بڑے لیڈروں کی تعداد بی جے پی کی بات کریں تو اس کے پاس وزیر اعظم نریندر مودی کی شکل میں سب سے بڑے چہرے کے علاوہ امت شاہ، راج ناتھ سنگھ ، جے پی نڈا اور یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی قدآور لیڈر ہیں ۔ وہیں ، سماج وادی پارٹی کے پاس اکھلیش کے علاوہ صرف شیوپال یادو تھے ، اور وہ بھی زیادہ سرگرم نہیں نظر آئے۔ اکھلیش کے والد ملائم سنگھ یادو نے بھی ان انتخابات میں صرف 2 ریلیوں میں حصہ لیا۔
مسلم یادو کے علاوہ کوئی بڑا ووٹ بینک نہیں:
اتر پردیش میں، سماج وادی پارٹی کو عام طور پر سیاسی زمین پر ایک ایسی پارٹی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جس کے اہم ووٹر مسلمان اور یادو ہیں۔ اگر آپ انتخابات کے رجحانات پر نظر ڈالیں تو 2022 میں ان دونوں دھڑوں نے اکھلیش کی بھرپور حمایت کی تھی۔ لیکن جہاں تک دوسری ذاتوں گروپ کا تعلق ہے، وہ عام طور پر سماج وادی پارٹی سے دور رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹروں کے ایک بڑے حصے پر تقریباً یکمشت قبضہ جمانے کے بعد بھی ایس پی سپریمو اکھلیش یادو کا دوبارہ یوپی کا سی ایم ننے کا خواب ٹوٹ گیا۔
انتخابی وعدوں پر عوام کے اعتماد کا فقدان:
سماج وادی پارٹی کی شکست کی ایک بڑی وجہ اس کے انتخابی وعدوں پر عوام کا اعتماد کی کمی ہے۔ مفت بجلی کے 300 یونٹ کے وعدے میں ووٹروں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی طاقت تھی، لیکن اکھلیش کی حکومت میں بجلی کی کٹوتی کی یادیں ابھی تک عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اسی طرح دیگر انتخابی مسائل پر بھی اکھلیش حکومت کا سابقہ ریکارڈ چھایا رہا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دور میں عوام کو بہتر بنیادی سہولیات نظر آئیں۔
عوام کے ذہنوں میں ایس پی حامیوں کی ‘خراب شبیہ:
ان انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے کارکنوں کی دبنگ شبیہ نے بھی اکھلیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکومت سازی کی آواز کے ساتھ ہی ریاست کے کئی علاقوں سے ایس پی لیڈروں اور کارکنوں کے متنازع بیانات سامنے آنے لگے، جن میں سے کئی مبینہ طور پر دھمکیوں کی شکل میں تھے۔ مئو سے ایس پی اتحاد کے امیدوار عباس انصاری کے مبینہ ‘’حساب کتاب‘ کی بات ہو یا کئی علاقوں میں ایس پی کے حامیوں کی ہنگامہ آرائی، اس طرح کی رپورٹوں نے یقینی طور پر ایک غیر جانبدار ووٹر کو الگ کر دیا ہے جو امن و امان پر یقین رکھتا ہے۔
انتخابات کے دوران فرقہ وارانہ پولرائزیشن:
ایس پی سپریمو اکھلیش یادو نے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو جم کرمیدان میں اتارے۔ ابتدائی مراحل میں ایس پی نے جم کرمسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا، جس کی وجہ سے بی جے پی ووٹروں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب رہی کہ اکھلیش مسلمانوں کی خوشنودی کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ مظفر نگر فسادات اور ایس پی کے دور میں مقامی سطح پر کئی واقعات نے ووٹروں کو ایس پی سے دور رکھا۔