لکھ نو:,اتر پردیش میں دھرم پریورتن کے خلاف انتہائی سخت قانون اور ایسا کرانے والے کو کڑی سزا کا قانون میں انتظام کیا گیا ہے یعنی اگر شمکوئی شیام اسلام بول کرلے تو یہ قانون حرکت میں آئے گا مگر جب کسی شمیم کو دھرم پریورتن کرایا جائے تو یہ عین قانون کے مطابق ہے اور اسے گھر واپسی کہا جائے گا ـ ایسا ہی ایک واقعہ ہفتہ کو، اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پیش آیا جب م سناتن دھرم سے ‘متاثر’ ہو کر دو مسلم نوجوانوں نے ‘گھر واپسی’ کرلی ۔ منکمیشور مندر میں مہنت دیویا گری نے دونوں کو ماتھے پر تلک لگا کر سناتن میں خوش آمدید کہا۔ ان کو نیا نام دیا گیا۔ اس دوران ٹھاکر جتیندر نارائن سنگھ سینگر موجود تھے۔ وہ پہلے سید وسیم رضوی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں نفرت اور تعصب کو ایک طرف چھوڑ کر آج سرفراز احمد (40) ساکن بجنور اور گلناز (32) ساکن شاہجہاں پور نے سناتن قبول کیا۔
انہوں نے دعویٰ کہ سناتن کلچر کو بغیر کسی دباؤ کے ہم سب کے درمیان قبول کیا ہے۔ ہم سب ان کا سناتن دھرم میں خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سناتن دھرم میں ان کا نام کرن بھی دیا گیا ہے۔ سرفراز احمد کا نام اب راجن مشرا اور گلناز کا نام ویراٹ شرما ہے۔ معاشرہ اب انہیں ان ناموں سے پہچانے گا۔
ٹھاکر جتیندر نارائن سنگھ سنگر نے سناتن دھرم میں تبدیلی کے بعد دونوں کو 11,000 روپے کے چیک دیئے۔ ہر ایک کو 3000 روپے کے مزید چیک دئیے۔ جو انہیں ہر ماہ دیا جائے گا۔(امراجالا کے ان پٹ کے ساتھ )