اتر پردیش کے فیروز آباد کے سرکاری اسپتال میں ایک مسلمان شخص کی نماز ادا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ اگرچہ نماز میں چند منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا، لیکن ہندوتووادیوں نے اس شخص پر بڑے پیمانے پر تنقید کی ہے۔
اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی ایم ایل اے کیتکی سنگھ نے اپنے متنازعہ بیان میں کہا کہ مسلمانوں کے لیے الگ وارڈ مختص کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ”مسلمانوں کو ہندو تہواروں جیسے ہولی، رام نومی اور درگا پوجا سے مسئلہ ہے۔ شاید انہیں ہندوؤں کے ساتھ اپنا علاج کروانے میں بھی دشواری ہو۔ میں مہاراج جی، چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ سے درخواست کروں گا کہ مسلمانوں کے لیے الگ وارڈ مختص کریں تاکہ ان کے ساتھ الگ سلوک کیا جائے۔ "کون جانتا ہے کہ اگر وہ ہم پر تھوکتے ہیں تو کیا ہوگا؟ ہمیں اپنی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے،‘‘ انہوں نے کہا۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کے چونکا دینے والے بیان ہر عوام کی طرف سے تنقید کی ہے جنہوں نےمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ اور نفرت پھیلانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
تاہم، کئی ہندوتوا تنظیمیں بی جے پی لیڈر کی حمایت میں آئیں اور کہا کہ مسلمانوں کا اسپتال کے اندر نماز پڑھنا اپنے مذہبی غلبہ کو ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ تنظیم کے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے، ہندو واہنی کے رہنما ہردیش شرما نے کہا، "انتظامیہ نے ایک ضابطہ پاس کیا ہے کہ کوئی نیا عمل شروع نہیں کیا جانا چاہئے۔ احاطے میں نماز پڑھنا ناقابل قبول ہے۔‘‘حیرت کی بات یہ ہے کہ اسپتال انتظامیہ بھی ان ہندو تنظیموں کے حق میں آگئی۔ چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (سی ایم ایس) ڈاکٹر نوین جین نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ اس شخص کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں ۔ انہوں نے کہا : ’’نماز مسجد میں پڑھنی چاہیے۔
دائیں بازو کے گروپوں نے ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے جنہوں نے مسلمان شخص کو نماز پڑھنے کی اجازت دی۔
بہت سے صارفین نے اپنے ایکس ہینڈلز پر اس ہر اپنی ناراضگی ظاہر کی کہ اس واقعے کو ’غلبہ ثابت کرنے کی کوشش‘ قرار دیا جارہا ہے انہوں نے الزام لگایا کہ ترقی پر توجہ دینے کے بجائے، بی جے پی غیر ضروری تنازعات اور بحث کو ہوا دے کر معمول کی صورتحال کو پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔