ملک کی ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک اہم بیان دیا ہے۔ وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 2018 سے اب تک پچھلے سات سالوں میں ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں 78 فیصد جج اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درج فہرست ذاتوں (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور اقلیتوں کی نمائندگی صرف 5 فیصد ہے۔ جبکہ تقریباً 12 فیصد ججوں کی تقرری دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) سے ہوئی ہے۔لوک سبھا میں آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا کے ذریعہ اس مسئلہ پر اٹھائے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ 2018 سے ملک کے مختلف ہائی کورٹس میں تقرر کردہ 715 ججوں میں سے صرف 22 ایس سی زمرے سے آتے ہیں۔ جبکہ 16 ایس ٹی اور 89 او بی سی زمرے سے آتے ہیں۔ اس دوران 37 اقلیتوں کو بھی جج بنایا گیا۔
جن ستہ کے مطابق وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت عدلیہ میں سماجی تنوع کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018 سے ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے کی گئی سفارشات میں امیدواروں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے سماجی پس منظر کے بارے میں معلومات دیں۔ اسے سپریم کورٹ (ایس سی) کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔وزیر قانون نے یہ بھی بتایا کہ حکومت ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ججوں کے عہدوں پر تقرری کے لیے سفارشات پیش کرتے وقت ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، اقلیتی برادریوں اور خواتین کی نمائندگی پر غور کریں، تاکہ سماجی تنوع کو یقینی بنایا جاسکے۔واضح رہے کہ آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے حال ہی میں راجیہ سبھا میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی بہت کم ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں ان طبقات کے ججوں کی تقرری میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے حکومت سے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور کیا اس نے عدالتی تقرریوں کے عمل میں سماجی تنوع کو شامل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے بات کی ہے۔