نئی دہلی:جامعہ ہمدرد کے سینٹر آف ایکسیلینس اِن یونانی میڈیسن میں سپورٹ سوسائٹی (2S) کے زیرِ اہتمام چوتھا حکیم عبد الحمید میموریل لیکچر منعقد ہوا۔ اس علمی نشست کا موضوع “یونانی فارمیسی میں اصلاحات کے حوالے سے حکیم عبد الحمید کی علمی خدمات” رکھا گیا، جس میں یونانی طب کے ماضی، حال اور مستقبل پر بصیرت افروز گفتگو کی گئی۔تقریب کی صدارت پروفیسر سید حسنین اختر، صدرِ شعبہ عربی، یونیورسٹی آف دہلی نے کی، جبکہ سابق چیف سیکریٹری حکومتِ ناگالینڈ ڈاکٹر جان عالم، ، مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ مہمانانِ اعزازی میں پروفیسر انور حسین خان (ڈین، اسکول آف یونانی میڈیسن اینڈ ریسرچ)، پروفیسر سعید احمد (ڈائریکٹر، سینٹر آف ایکسیلینس اِن یونانی میڈیسن)، پروفیسرعبدالودودصدیقی اور ڈاکٹر شکیل احمد شامل تھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کے بعد معزز مہمانوں کی گلدستوں کے ساتھ پذیرائی کی گئی۔
مرکزی لیکچر حکیم فخرِ عالم، ریسرچ آفیسر (یونانی)، آر آر آئی یو ایم علی گڑھ نے پیش کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حکیم عبد الحمید کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ یونانی دواسازی کے میدان میں ان کی علمی خدمات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں، جن کا اثر صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پورے برصغیر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تصور کو مدلل انداز میں پیش کیا کہ ادویہ کی تیاری میں قدیم اور جدید طریقۂ کار کا معتدل امتزاج اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ قدیم روایت کی خوبیوں سے استفادہ اور جدید تقاضوں کی خامیوں سے اجتناب ممکن ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکیم عبد الحمید نے عملی مثالوں کے ذریعے یونانی دوا سازی میں اصلاح و بہتری کے لیے جو قیمتی علمی سرمایہ چھوڑا ہے، اس ضمن میں انہوں نے معیار بندی، ادویہ کے افعال میں یکسانیت، اشکالِ ادویہ میں اصلاح و ترمیم اور محفوظ مدتِ استعمال (Shelf Life) کے تعین جیسے اہم چیلنجز پر تفصیلی گفتگو کی اور صنعتی دواسازی میں تحقیق کو نظرانداز کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
آپ نے حکیم عبد الحمید کی علمی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ قرابادین مجیدی، قرابادین ہمدرد، این ایف یو ایم پارٹ 5، ہمدرد فارماکوپیا اور ہمدرد فارماکوپیا آف ایسٹرن میڈیسن جیسی تصانیف محض روایتی قرابادین نہیں بلکہ جدید یونانی دواسازی کی فکری بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ان کتب کا مطالعہ وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جس کی وہ مستحق تھیں، اس موقع پر مہمانانِ اعزازی پروفیسر انور حسین خان، پروفیسر عبدالودود،ڈاکٹر شکیل احمد اور پروفیسر سعیداحمدنے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حکیم عبد الحمید کی علمی خدمات اور ان کے اصلاحی وژن کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر جان عالم، آئی اے ایس نے اپنے خطاب میں کہا کہ چوتھے حکیم عبد الحمید میموریل لیکچر میں شرکت ان کے لیے باعثِ افتخار ہے۔ انہوں نے سپورٹ سوسائٹی (2S)، جامعہ ہمدرد، اسکول آف فارماسیوٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور سینٹر آف ایکسیلینس اِن یونانی میڈیسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکیم عبد الحمید کی اصلاحی خدمات ہماری طبی وراثت اور جدید تحقیق کے حسین امتزاج کی درخشاں مثال ہیں،
صدرِ مجلس پروفیسر سید حسنین اختر نے اپنے صدارتی خطاب میں حکیم عبد الحمید کے وژن اور مشن پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ان کی علمی بصیرت، فکری اعتدال اور سماجی خدمات کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔
پروگرام کے اختتام پر تعلیمی و پیشہ ورانہ میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والے باصلاحیت نوجوان طلبہ ڈاکٹر سعد ارشد صدیقی، مس مبشرہ عرفان، مس زارہ مجید، مسٹر محمد تارض، مسٹر نادر صبا، مسٹر محمد عقیب اور مسٹر سید زید منیر کو مہمانِ خصوصی کے ہاتھوں اخلاق حسین ینگ ایکسیلینس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر ایوارڈ یافتگان کی محنت، لگن اور مستقبل کی روشن امیدوں کو سراہا گیات۔ بعد ازاں اظہارِ تشکر، کے سپورٹ سوسائٹی کے بانی جنرل سکریٹری حکیم اجمل اخلاق نے دیئے جبکہ استقبالیہ کلمات پروگرام کے آرکنائزنگ چیئرمین سید منیر عظمت نے پیش کیا سپورٹ سوسائٹی کاتعارف اور سالانہ رپورٹ ڈاکٹر عبداللہ نے پیش کیا
پروگرام میں بڑیی تعداد میں یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ پروفیسر زینت اقبال ،پروفیسر خورشید احمدانصاری ،پروفیسر منہاج احمد، ڈاکٹر عظمی بانو، ڈاکٹر مصباح الدین اظہر، ڈاکٹر فرحان احمد علوی پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر محمد خالداسسٹنٹڈرگس کنٹرولرولائسنسنگاتھاریٹی حکومت دہلی ،ڈاکٹر سعدیہ زاہد ،ڈاکٹرانصار احمد ڈاکڑرجنیش ،محمد جلیس ،ڈاکٹر عرفان احمد ڈاکٹر فرقان احمد ڈاکٹر مجید احمد ڈاکٹر عزیربقائی نے شرکت کی، واضح رہے پروگرم کے کنوینر ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی تھے
صدرِ مجلس اور مہمانِ خصوصی کے اختتامی کلمات، قومی ترانہ اور شرکاء کے لیے ہائی ٹی کے اہتمام کے ساتھ یہ علمی و فکری نشست اختتام پذیر ہوئی۔








