دوٹوک:قاسم سید
یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار کی نیت پر براہِ راست بدگمانی قائم کرنا قرینِ انصاف نہیں۔ ان کا سیاسی ماضی، خاص طور پر بی جے پی کی سخت ہندوتو سیاست سے فاصلہ رکھنے کی کوششیں، اسے ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دینے اور بے لگام ہندوتووادی عناصر کو کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی نے بی جے پی کا حلیف ہونے کے باوجود نتیش کو مسلمانوں کا اعتماد حاصل رہا ہے اور وہ بھی اس بات کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں ـ,بہار جیسی پیچیدہ ریاست اور بی جے پی جیسے پارٹی کے ساتھ رہ کر بھی فرقہ وارانہ آلودگی سے پاک رہنا پولیٹیکل سائنس کے طلبا کے لیے مطالعہ کا دلچسپ موضوع ہے ـ یہ مہارت بتاتی ہے کہ وہ علامتی طور پر خود کو “معتدل” اور “سیکولر” دائرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر سیاست میں نیت سے زیادہ عمل اور اس کے اثرات اہم ہوتے ہیں، اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ واقعہ محض ایک ذاتی یا غیر ارادی حرکت نہیں رہتا بلکہ ایک بڑے سماجی و سیاسی سیاق میں داخل ہو جاتا ہے۔
باحجاب مسلم خاتون کے ساتھ جو رویہ سامنے آیا، اسے اگر “سافٹ لنچنگ” نہ بھی کہا جائے تو کم از کم یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ یہ ایک ایسی علامتی بے ادبی ہے جو طاقت کے عدم توازن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ایک بااختیار وزیرِ اعلیٰ کا کسی باحجاب مسلم خاتون کے حجاب کو یوں چھیڑنا، خواہ مسکراہٹ یا غیر رسمی انداز میں ہو، دراصل اس تصور کو معمول بناتا ہے کہ مسلم شناخت، خاص طور پر مسلم خواتین کی مذہبی علامتیں، عوامی دائرے میں احترام کی مستحق نہیں رہیں۔ یہی “سافٹ لنچنگ” کی اصل روح ہے: تشدد کے بغیر تذلیل، قانون شکنی کے بغیر خوف، اور نعرے کے بغیر پیغام سے اظہار کی زبان ہے ۔
اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات “ایفرنج اپلیمنٹ” یعنی انتہا پسند ذہنیت کے لیے تہذیبی سفاکیت کا اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ جب اقتدار کے ایوانوں سے یہ پیغام جائے کہ حجاب، داڑھی یا مذہبی شناخت کے ساتھ بے تکلفی یا بے احتیاطی قابلِ قبول ہے، تو سڑک پر کھڑا عام شخص خود کو زیادہ حق بجانب محسوس کرتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے: “جب وزیرِ اعلیٰ یہ کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟” یوں ریاستی سطح پر ہونے والی ایک “چھوٹی” لغزش سماجی سطح پر بڑا گناہ بن جاتی ہے۔
یہاں اصل سوال نتیش کمار کی نیت کا نہیں، (جس پر کسی شبہ نہیں کرنا چاہیے) ریاستی ذمہ داری کا ہے۔ ایک سیکولر ریاست کا سربراہ ہونے کے ناطے ان پر لازم تھا کہ وہ نہ صرف مذہبی علامات کا احترام کریں بلکہ اس احترام کو شعوری طور پر ظاہر بھی کریں، کیونکہ آج کا ہندوستان نیتوں سے نہیں، مثالوں اور علامتوں سے چل رہا ہے۔ خاموشی، لاپروائی یا غیر سنجیدگی اب غیر جانب داری نہیں رہیں؛ یہ طاقتور بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہو چکی ہیں۔
اس واقعے کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ محض ایک کلپ یا لمحہ نہیں رہے گا بلکہ اس سلسلے کی ایک اور کڑی بن جائے گا جس میں مسلمانوں کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ان کی شناخت عوامی دائرے میں قابلِ احترام نہیں بلکہ قابلِ مداخلت ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں “نیت” غیر متعلق اور “اثر” فیصلہ کن ہو جاتا ہے۔کیا ہی بہتر ہو کہ بڑا دل دکھاتے ہوئے نتیش کمار اس ارادی یا غیر ارادی فعل کے لیے معذرت کرلیں،وہ صرف وزیر اعلی نہیں ریاستی عوام کے سرپرست بھی ہیں اور ہر شخص کے مذہبی جذبہ کا احترام اور اس کا اظہار ان بدنیت اور فرقہ پرور عناصر کی حوصلہ شکنی کرے گا جو ایسے واقعات کو دلیل بناکر دل آزاری اور ذہنی و جسمانی اذیتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ،








