جائزہ: اپوروانند
گزشتہ ہفتے لاکھوں لوگوں نے ایک ویڈیو دیکھا، جس میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک سرکاری تقریب میں اپنے سامنے کھڑی خاتون کا حجاب کھینچتے ہوئےنظر آئے۔ یہ سرکاری اسکیم آیوش کے تحت ڈاکٹروں کو تقرری کا خط تقسیم کرنے کا ایک پروگرام تھا۔ وہ خاتون دوسروں کے ساتھ نوکری کا اپنا کاغذ لینے آئی تھی۔آج کل، سرکاری نوکری ملنا ایک واقعہ ہے، انتہائی غیر معمولی واقعہ؛ یہی وجہ ہے کہ اس کےاعلان کےلیے باقاعدہ پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جنہیں نوکری ملتی ہے ، وہ قطار میں کھڑے ہوکر وزرائے اعلیٰ یا وزیر اعظم سے تقرری کاخط حاصل کرتے ہیں،گویا وہ کوئی ان کا ‘پرساد’ ہو۔ اب وہ نوکری دیتے ہیں ، راشن دیتے ہیں۔ یہ بذات خود ذلت آمیز ہے، لیکن اب کوئی اس پر بات ہی نہیں کرتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں شخصی وقار کے تصور کو دھندلا کر دیا گیا ہے۔ حکمراں تو اس کوکچل ہی رہے ہیں، معاشرہ بھی عزت نفس سے محروم ہو چکا ہے۔ حکمراں کو باپ یا ماں تصور کیا جانے لگا ہے۔ عوام اس کی اولاد ہو گئی ہے۔ منتخب حاکم مائی-باپ ہے، اس لیے وہ اپنی رعایا کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کر سکتا ہے۔ جو لوگ باپ کی شفقت چاہتے ہیں انہیں اپنے باپ کے غصے یا اس کی بدتمیزی بھی برداشت کرنی چاہیے ۔نتیش کمار خاتون کےچہرے سے نقاب کھینچتے ہوئےمسکرا رہے ہیں۔ پاس کھڑے عہدیدار یا رہنما بھی مسکرا رہے ہیں۔ خاتون حیران و پریشان ہے۔۔ نتیش کمار نے ابھی تک اس پر کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا ہے، معافی مانگنا تو دور کی بات ہے۔ ان کی حکومت اور پارٹی کے ترجمان اس حرکت کو ہوا میں اڑا دینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نتیش بزرگ ہیں اور وہ صرف چاہتے تھےکہ عورت کا چہرہ صاف نظر آئے۔
لیکن یہی توبات ہے۔ وہ عورت انہیں اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتی تھی۔ ورنہ وہ نقاب کیوں پہنتی؟ کیا وزیراعلیٰ کو کسی کا چہرہ اس کی مرضی کے خلاف دیکھنے اور اور دکھانے کا حق حاصل ہے؟ یاکیا انہیں اس طرح کسی کو پریشان کرنے کا حق ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم اس واقعے پر مزید بات کریں، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ نتیش کمار کی بدتمیزی کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی خواتین کے ساتھ اسٹیج پرنازیبا سلوک کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ان کا اپنے اوپر قابو نہیں رہ گیا ہے۔ اس لیے ان کی اس حرکت کو بھی ان کی صحت کے پیش نظر معاف کر دینا چاہیے۔ لیکن خراب صحت کسی کے شخصی وقار کو پامال یا مجروح کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا۔
اس واقعے کے بعدسامنے آئے ردعمل سے ہمارے معاشرے کی ذہنی صحت کا بھی کچھ پتہ چلتا ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی کے لوگوں میں سے کسی نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ان کا دماغ اب کام نہیں کر رہا ہے اور انہوں نے جو کیا وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا، اس لیے انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ اس کے بجائے، وہ وزیر اعلیٰ کے دفاع میں دلائل پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو خواتین مخالف یا مسلم مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہوں نے دونوں کے حق میں بہت کام کیے ہیں۔اگر آپ نے میری کوئی مدد کی ہے تو کیا میں آپ کواپنے ساتھ بدتمیزی کرنے کا حق دے دوں؟ آپ مسلمانوں کے خیر خواہ ہونے کے نام پر کسی مسلمان عورت کی انفرادیت کو پامال نہیں کر سکتے۔
۔ سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے کہ ہندو ہونے کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگ اس کو بہانہ بنا کر یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ مسلم خواتین کو نقاب اور حجاب سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایرانی خواتین کی مثال دے رہے ہیں کہ انہوں نے حجاب کے خلاف کتنی مؤثرتحریک شروع کی تھی۔گویا نتیش کمار اسی تحریک کو ہندوستان میں آگے بڑھا رہے ہوں۔اس سے قبل، ہم نے ایسے مظاہروں کی خبریں دیکھیں، جن میں وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی) کے لوگ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پہلے ایک جگہ ہندو لڑکوں نےبھگوا اسکارف لگا
کیونکہ وہ مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ حجاب پہننے والی مسلم خواتین سے ہندوؤں کے کون سے حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ ان کے مقابلے میں وہ بھگوا کیوں پہن رہے ہیں؟نتیش کمار کی بیماری سے الگ ہے ہندو سماج میں پھیلی یہ ذہنی بیماری ۔ یہ اور بھی خطرناک ہے۔ اسے اصلاحی بیماری کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اصلاح پسندی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ انہیں مسلم خواتین کو ان کے مذہب اور ان کے مردوں کے جبر سے آزاد کرانے کا حق ہے یا یہ ان کا فرض ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسلم خواتین کی توہین کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔پچھلے 11 سالوں میں، ہم نے ہندو برادری میں اس رجحان کو بڑھتے دیکھا ہے۔ مسلم خواتین کی توہین کے ساتھ مردوں کی ٹوپی اچھالنا، ان کی داڑھی کھینچنا، یہ سب اب کئی جگہوں پر رپورٹ نہیں ہوتے ۔ کچھ لوگ شکایت کرنے لگے ہیں کہ حجاب اور داڑھی-ٹوپی سے انہیں ڈر لگتا ہے۔نتیش کمار کی ذہنی بیماری یا عدم توازن نے ایک بار پھر ہندو سماج کے ایک طبقے کی سوچ کو اجاگر کر دیا ہے۔ نتیش کے ساتھ اس کے فوراً علاج کی سخت ضرورت ہے۔(کالم نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)










