روشنی :مولاناذکی نور عظیم ندو ی – لکھنؤ
پردہ کوئی رسم، فیشن یا وقتی سماجی چلن نہیں، بلکہ اسلامی شریعت کا وہ زندہ اور بامعنی شعار ہے جو عورت کی شرافت، اس کی عزت و عصمت کے تحفظ اور اس کے ایمانی وقار کی عظمت ہے۔ پردہ عورت کے وجود پر قدغن نہیں بلکہ اس کے وقار کی حفاظت اور شرافت کی علامت ہے۔ یہ پابندی نہیں بلکہ ایسی آزادی ہے جس کا مقصد اسے نگاہوں کی جارحیت، ذہنوں کی آلودگی اور معاشرتی استحصال سے محفوظ رکھنا ہے۔
حجاب کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ یہ ایک ایسی مسلسل عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف عورت کے حصے میں رکھی ہے، جو اس کے شب و روز، اس کی آمد و رفت، تعلیم و تعلم اور اس کی دیگر تمام معاشرتی مصروفیات کے ساتھ جڑی رہ سکتی ہے۔ یوں ایک باحجاب عورت اپنی زندگی کے بیشتر اوقات حالت عبادت میں رہ سکتی ہے جو ایک بڑا امتیاز اور شرف ہے۔
اسلام عورت کو محض جسمانی وجود نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک مکمل انسان، صاحبِ عقل و کردار، اور اخلاقی ذمہ داریوں کی حامل ہستی قرار دیتا ہے۔ اسی لئے پردہ صرف لباس نہیں، بلکہ نگاہوں کی پاکیزگی، لہجوں کی شائستگی، نیتوں کی صفائی اور معاشرتی حدود کی پاسداری کا ایک جامع نظام ہے۔
حجاب عورت کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی اخلاقی قوت ہے، یہ عورت کو خاموش کرنے والی بندش نہیں بلکہ اس کی باوقار شناخت اور خود اختیار کردہ عظمت کا برملا اعلان ہے، اور ایک طرح سے یہ پیغام ہے کہ ایک باحجاب خاتون بازار اور طاقت کی غلام نہیں بلکہ اپنی قدر سمجھنے اور اس کا حقیقی مقام متعین کرنے والی مضبوط اخلاق و اقدار سے آراستہ دوسری محترم انسانی صنف ہے۔
اسلامی سماج میں پردے کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ محض فرد کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی فضا کو متوازن رکھتا ہے۔ لوگوں کو حیا اور پاکدامنی کی ظاہری حدود و قیود سے مضبوط اور محفوظ حصار میں پناہ دیتا ہے اور ان کو اعلی قدروں اور مضبوط کردار میں ڈھالتا ہے۔ پردہ در اصل عورت اور مرد کے درمیان ایک اخلاقی معاہدہ ہے جس میں عورت اپنے وقار کی حفاظت کرتی ہے اور مرد اپنی نگاہ و کردار کی۔ اس توازن کے ٹوٹنے کا نتیجہ سماجی بگاڑ، بے اعتمادی اور اخلاقی انتشار کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ پردہ کبھی عورت کی حقیقی عظیم کردار کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ تعلیم و تربیت، دعوت و تبلیغ، خدمتِ خلق و تجارت اور اصلاحِ معاشرہ، غرض ہر میدان میں باحجاب خواتین نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔مسئلہ پردے کا نہیں بلکہ اس ذہنیت کا ہے جو عورت کو محض نمائش کا سامان سمجھتی ہے، اور جب عورت اس ذہنیت کے آگے سر جھکانے سے انکار کرتی ہے تو اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسی تناظر میں حالیہ دنوں بعض نہایت افسوسناک واقعات سامنے آئے جو اس بات کی علامت ہیں کہ اقتدار، طاقت اور سیاست جب اخلاقی حدود سے آزاد ہو جائیں تو وہ بےشرمی کی بدترین صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارکا ایک خاتون کے نقاب کو کھینچنا محض غیر مناسب ہی نہیں بلکہ ایک گھناؤنی، قابلِ مذمت اور شرمناک حرکت ہے۔ اس عمل کو تہذیبی نقطۂ نظر، جمہوری اقدار، اور انسانی وقار کسی بھی معیار پر درست نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کسی خاتون کے حجاب یا نقاب کو چھونا، اسے ہٹانا یا کھینچنا اس کے جسم سے زیادہ اس کے ایمان،شناخت اور حقِ انتخاب اور آزادی پر حملہ ہے۔
یہ حرکت سراسر ظلم اور بے حیائی ہے اور طاقت یا اقتدار کے نشے اور سائے میں انجام دیا جانے والا ظلم بہت خطرناک ہوتا ہے، یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو سماج میں خوف، عدمِ تحفظ اور بے اعتمادی بڑھاتا ہے۔ اگر آج ایک باحجاب خاتون کی بے حرمتی کو معمولی سمجھ لیا جائے تو کل کسی خاتون پر ہاتھ اٹھانے یا اس سے بھی زیادہ گھناؤنی حرکتوں کی جسارت بھی بعید نہیں۔میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ افسوسناک اور قابلِ مذمت پہلو وہ ہے جو اس واقعے کے بعد سامنے آیا۔ نتیش کمار کی اس حرکت پر ان کی پارٹی کے مسلم لیڈروں کی خاموشی موجودہ مفادات کی دنیا میں برداشت کی جاسکتی تھی،لیکن اس کی تاویلات اور بالواسطہ تائید نے ایک سنگین سوال کھڑا کر دیا کہ وہ مسلم نمائندے جنہیں مسلمانوں نے اپنے ووٹ، اعتماد اور امیدوں کا امین بنا کر ایوانوں تک پہنچایا تھا، اور یہ توقع وابستہ کی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے وقار، ان کے حقوق اور ان کی دینی شناخت کی ترجمانی کریں گے آج وہ ان کے نمائندے نہیں بلکہ اپنے سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں کے کھلونے بن گئے۔
یہ طرزِ عمل نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن بلکہ صریح خیانت ہے۔ جو شخص مسلمان ہوکر مسلمانوں اور اسلامی شعائر کی توہین پر خاموش رہے، یا اقتدار کی خاطر ظلم کو نا صرف نظر انداز کرے بلکہ اس کی تائید یا تاویل کرے، وہ اپنی قوم اور اپنے دین دونوں کا مجرم ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں ذرا برابر تأمل نہیں کہ ایسے لوگ قیادت اور نمائندگی کے اہل کیسے ہو سکتے ہیں جن کا ضمیر سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہو۔
ان مسلم لیڈروں کا کردار اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اقتدار سے قربت نے ان کی زبانوں پر قفل ڈال دیا اور ان کے ضمیر کو مفادات و مصلحت کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ یہ اسلام کی ترجمانی کے بجائے سیاسی احکام کی تعمیل کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ ان کے لئے حجاب کی بے حرمتی، ایک تعلیم یافتہ خاتون کی توہین و بےعزتی، اور دوسری پڑھی لکھی خواتین کی دل شکنی کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ ان کی نظر میں ان کے سیاسی آقا اور ان کا تقرپ زیادہ قیمتی ہے۔
فطری نقطۂ نظر سے کسی باحجاب خاتون کی بے حرمتی ایک ایسا جرم ہے جس میں ظلم بھی ہے اور دینی شعائر کی توہین بھی، جو دراصل مذہبی آزادی، انسانی وقار اور سماجی امن پر حملہ ہے۔ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرنا یا ظلم کا جواز تلاش کرنا اس جرم میں شرکت کے مترادف اورسماجی سطح پر اس کا انجام نہایت خطرناک ہے۔ جب مسلم نمائندے خود اپنے دین اور اس کے شعار کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں تو عام مسلمان عدمِ تحفظ، مایوسی اور احساسِ بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاسی اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ نئی نسل کے دلوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا ان کی شناخت واقعی قابلِ احترام ہے یا محض ووٹ بینک کی حد تک اہمیت رکھتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں کہ نمائندگی صرف نام کی نہیں بلکہ کردار کی ہوتی ہے۔ جو شخص اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر اسلام کے وقار پر ہونے والی ضرب پر خاموش رہے، وہ نمائندہ نہیں بلکہ بوجھ ہے۔ قوم کو ایسے چہروں کی پہچان کرنی ہوگی جو زبان سے مسلمان اور عمل سے غلام ہوں۔
آخر میں ایک بار پھر یہ بات پورے وثوق سے کہنا چاہتا ہوں کہ پردہ اسلامی سماج کی روح ہے۔ جس کی حفاظت عورت کا حق بھی ہے اور سماج کی ذمہ داری بھی۔ اور جو ہاتھ اس روح کو زخمی کرنے کے لیے اٹھے،چاہے وہ اقتدار کے ایوان سے ہو یا سیاست کے بازار سے، اسے روکنا ہر فرد کا فرض ہے۔ اسی طرح جو ظلم پر خاموش رہیں اور بیجا تاویلات کے ذریعہ ان کی تاویل کی کوشش کریں، ان کا محاسبہ بھی ناگزیر ہے۔کیونکہ جب قیادت ایمان کے بجائے اقتدار اور وقتی مفاد کے تابع ہو جائے تو زوال صرف سیاست کا نہیں، پوری قوم کا مقدر بن جاتا ہے۔
zakinoorazeem@gmail.com







