بہار کے نوادہ ضلع کے روہ بلاک کے بھٹہ گاؤں میں ایک 50 سالہ مسلمان اسٹریٹ وینڈر محمد اطہر کو ہندو بھیڑ کے ذریعہ ٹارچر اور لنچنگ کے نتیجہ میں موت کی خبر نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا ، مگر اس کے برعکس بہار پولیس نے مبینہ طور پر چوری کا الزام لگانے والے ایک وائرل ویڈیو کی جانچ شروع کردی ہے۔
اس اقدام پر مقتول کے اہل خانہ، کمیونٹی کے لوگ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے، جو اسے ایک سنگین ناانصافی اور موت کے بعد مظلوم پر الزام لگانے کے عمل کے طور پر دیکھ رہے ہیںاہل خانی مقامی باشندے ایک نفرت انگیز حملے کے طور پر بیان کرتے ہیں
واضح رہے کہ اطہر پر 5 دسمبر کی رات کو ایک ہجوم نے وحشیانہ حملہ کیا اور بعد میں وہ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔اس قتل نے مقامی مسلمانوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں میں غصے کو جنم دیا، جنہوں نے انتظامیہ پر ایک غریب ہاکر کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا اور ذمہ داروں کو فوری اور مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
ادھر پولیس نے کہا ہے کہ لنچنگ کے سلسلے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں پانچ نامزد ملزمان اور چھ نامعلوم افراد شامل ہیں۔تاہم، اب توجہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے 20 سیکنڈ کے کلپ کی طرف مبذول ہو گئی ہے، جس میں مبینہ طور پر اطہر کو چور کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ تفتیش کے ایک حصے کے طور پر ویڈیو کو "چوری کے زاویے” سے جانچا جا رہا ہے۔افسر نے ایک عوامی بیان میں کہا، "سوشل میڈیا پر ایک مختصر کلپ سامنے آیا ہے۔ ہم تمام پہلوؤں کی جانخ کر رہے ہیں۔”اطہر کے اہل خانہ نے اس لائن آف انکوائری پر سخت اعتراض کیا ہے۔ شبنم، ان کی اہلیہ، جنہوں نے 6 دسمبر کو ایف آئی آر درج کرائی، کہا کہ ویڈیو پر توجہ دراصل جرم کا ازالہ کرنے کے بجائے متاثرہ کو مورد الزام ٹھہرانے کے مترادف ہے۔اطہر کو اس کے اہل خانہ اور دوستوں نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ہاکر کے طور پر بیان کیا ہے جو روزی کمانے کے لیے قریبی دیہات میں گھریلو سامان فروخت کرتا تھا۔ "وہ غریب تھا لیکن ایماندار تھا،” ایک پڑوسی نے کہا۔ "ایک ہجوم نے بغیر قانون کے اس کی قسمت کا فیصلہ کیا۔”اہل خانہ کے مطابق، اطہر نے اپنی موت سے قبل ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے جس ظلم و بربریت کا سامنا کیا تھا، اس کی تفصیل بتائی تھی۔ اس نے مبینہ طور پر کہا کہ حملہ آوروں نے اس کے کپڑے اتار دیے، اس سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھ گچھ کی، اسے لوہے کی گرم سلاخوں سے داغا گیا اور اس کے کان کا کچھ حصہ پلاس ال سے کاٹ دیا۔پولیس نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ تفتیش جاری ہے اطہر کے اہل خانہ اور مسلم کمیونٹی کے افراد ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اس کی موت کے بعد متاثرہ پر الزام لگانے کے بجائے لنچنگ کے لیے جوابدہی کا مرکز بنائے۔مکتوب کےان پٹ کے ساتھ








