تجزیہ: ڈاکٹر شاہد حبیب
خدا کے وجود یا عدمِ وجود کا سوال انسانی فکر کی قدیم ترین اور گہری ترین بحثوں میں شمار ہوتا ہے۔ فلسفہ، مذہب، سائنس اور ادب، سب نے اس سوال کو اپنے اپنے زاویے سے برتا ہے۔ جدید دور میں، جب سائنسی عقلانیت (Scientific Rationalism) اور انسانیت پسند فکر (Humanism) کو فوقیت حاصل ہو چکی ہے، یہ سوال مزید پیچیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔ کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہونے والا مباحثہ بعنوان ”?Does God Exist“ اسی فکری کشمکش کی ایک جدید مثال ہے، جس میں اسلامی فلسفیانہ روایت کی نمائندگی مفتی شمائل ندوی صاحب نے کی، جبکہ جدید ایتھزم اور انسانیت پسند تنقید کا اظہار جاوید اختر کے ذریعے سامنے آیا۔ اس حوالے سے درج ذیل سوال پر غور کرنا چاہیے۔
1. یہ ڈیبیٹ فکری سطح پر کہاں کامیاب اور کہاں کمزور رہی؟
2. مفتی شمائل ندوی صاحب کی اسٹریٹجی میں کیا خامیاں تھیں؟
3. اور اگر خدا کے وجود کے حق میں دلائل کو اکیڈمک انداز میں منظم کیا جاتا تو مقدمہ کس قدر مضبوط ہو سکتا تھا؟
خدا کے وجود پر ہونے والی بحثیں بنیادی طور پر تین بڑے فکری دائروں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں:
1. فلسفیانہ و عقلی دلائل
2. سائنسی و تجرباتی اعتراضات
3. اخلاقی و انسانی دکھ پر مبنی سوالات (Problem of Evil)
کانسٹی ٹیوشن کلب کی ڈیبیٹ دراصل انہی تینوں دائروں کا تصادم تھی۔ مفتی شمائل ندوی صاحب نے پہلے دائرے کو اختیار کیا، جبکہ جاوید اختر نے دوسرے اور تیسرے دائرے کو بنیاد بنایا۔ اکیڈمک ڈیبیٹ تھیوری کے مطابق، افتتاحی خطاب (Opening Statement) کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ:
مباحثے کا Framework طے کیا جائے، بنیادی مفروضات (Assumptions) واضح کیے جائیں اور سامعین کے ذہن میں مقدمے کی منطقی ساخت بٹھا دی جائے۔
یہاں مفتی شمائل ندوی صاحب کو سب سے پہلے بولنے کا موقع ملا، جو کہ ایک غیر معمولی اسٹریٹجک فائدہ تھا۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اپنے قیمتی وقت کا ایک حصہ جاوید اختر کے ممکنہ اعتراضات پر صرف کیا، بجائے اس کے کہ خدا کے وجود کے حق میں ایک جامع “Positive Case” قائم کرتے۔ اکیڈمک سطح پر یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ:
“You do not rebut an argument before it is formally presented.”
مفتی شمائل ندوی صاحب نے درج ذیل دلیل کو اپنے اوپننگ ریمارکس میں کامیابی سے پیش کیا۔
1. دلیلِ امکان (Argument from Contingency)
یہ دلیل فلسفۂ مذہب میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، جس کی بنیاد ابنِ سینا، فارابی اور بعد میں لائبنیز نے رکھی۔
جس کے بنیادی مقدمات کے تحت:
1. کائنات کی ہر شے ممکن الوجود ہے۔
2. ممکن الوجود شے اپنے وجود کے لیے کسی علت کی محتاج ہوتی ہے۔
3. ممکنات کا لامتناہی سلسلہ (Infinite Regress) عقلی طور پر محال ہے۔لہٰذا ایک ایسی ہستی کا وجود ناگزیر ہے جو خود ممکن نہیں بلکہ واجب ہو، غیر محتاج ہو اور تمام ممکنات کا سبب ہو۔ یہی ہستی خدا ہے۔
یہ دلیل اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ یہ مذہبی متن پر انحصار نہیں کرتی بلکہ خالص منطق اور مابعدالطبیعات (Metaphysics) پر مبنی ہے۔
ذیل میں وہ دلائل پیش کیے جا رہے ہیں جو اگر اوپننگ ریمارکس میں منظم انداز میں رکھے جاتے تو بحث کا رخ خاصا مختلف ہو سکتا تھا۔
1. کاسمولوجیکل دلیل (Cosmological Argument)
جدید فلسفے میں اس کی شکل Kalam Cosmological Argument کے نام سے جانی جاتی ہے۔
1. جو چیز شروع ہوتی ہے، اس کی کوئی علت ہوتی ہے
2. کائنات کا ایک آغاز ہے (Big Bang Theory)
3. لہٰذا کائنات کی کوئی علت ہے
یہ علت غیر مادی، غیر زمانی اور طاقتور ہونی چاہیے۔ یہ صفات صرف خدا پر صادق آتی ہیں۔
2. نظمِ کائنات اور Fine-Tuning Argument
جدید طبیعیات کے مطابق کائنات کے بنیادی قوانین انتہائی نازک توازن پر قائم ہیں، اگر ان میں معمولی سی تبدیلی بھی ہو جائے تو زندگی ممکن نہیں رہتی۔ یہ ”Fine-Tuning“ محض اتفاق نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی Intelligent Cause کی متقاضی ہے۔ یہ دلیل جدید سائنس اور فلسفے کے سنگم پر کھڑی ہے۔
3. شعور کی دلیل (Argument from Consciousness)
انسانی شعور مادی اجزا کا محض مجموعہ نہیں بلکہ خود آگاہی (Self-awareness) رکھتا ہے۔ مادہ شعور پیدا نہیں کرتا بلکہ صرف کیمیائی تعاملات انجام دیتا ہے۔ لہٰذا شعور کا وجود کسی غیر مادی منبع کی طرف اشارہ کرتا ہے
4. اخلاقی دلیل (Moral Argument)
اگر خدا نہیں تو خیر و شر کی کوئی معروضی بنیاد نہیں، اخلاق محض سماجی معاہدہ بن جاتے ہیں۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم ”واقعی“ غلط ہے۔ بچوں کا قتل ”واقعی“ برا ہے۔ یہ اخلاقی حقیقت کسی اعلیٰ اخلاقی منبع کی متقاضی ہے جو خدا کے بغیر ممکن نہیں۔
مسئلۂ شر (Problem of Evil): جاوید اختر کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ”اگر خدا قادر اور رحیم ہے تو دنیا میں اتنا دکھ کیوں ہے؟“ اکیڈمک سطح پر اس کے متعدد جوابات موجود ہیں۔ جیسے:
1. Free Will Defense
2. Soul-Making Theodicy
3. Limited Human Knowledge Argument
اہم بات یہ ہے کہ شر کا اعتراض خدا کے تصور کو رد نہیں کرتا بلکہ خدا کے تصور کو فرض کر کے سوال اٹھاتا ہے۔
علمی اعتبار سے مفتی شمائل ندوی صاحب کے پاس مضبوط دلائل، مستند فلسفیانہ روایت موجود تھی۔ لیکن دلائل کی ترتیب، وقت کا درست استعمال اور اوپننگ اسپیچ کی ساخت کمزور رہی۔ یہ کمزوری فکری نہیں بلکہ ”اسٹریٹجک“ تھی۔
کانسٹی ٹیوشن کلب کی یہ ڈیبیٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کے وجود کے حق میں دلائل آج بھی مضبوط ہیں۔ مگر انہیں جدید اکیڈمک اسلوب میں پیش کرنا ناگزیر ہے۔ اگر آئندہ دلائل کو منظم، اوپننگ کو خالص Positive Case اور اعتراضات کو الگ مرحلے میں رکھا جائے تو نہ صرف ایتھزم کا مقدمہ کمزور پڑے گا بلکہ فلسفۂ مذہب کی روایت ایک بار پھر فکری مرکز میں آ سکتی ہے۔یہ بحث ختم نہیں ہوئی، یہ صرف ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔ اس لیے اسی تناظر میں اگلے مرحلے کی تیاری بھی جاری رہنی چاہیے۔شکریہ










