*مولانا مہدی حسن عینی قاسمی
یہ بات پوری وضاحت اور ذمہ داری کے ساتھ سمجھ لی جائے کہ جس طرح دارالعلوم دیوبند ہماری مادرِ علمی اور ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے،اسی طرح ندوۃ العلماء بھی ہمارے لیے نہایت معزز،محترم اور قابلِ قدر ادارہ ہے۔
جس طرح ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی دارالعلوم دیوبند کے خلاف بدزبانی یا توہین آمیز لہجہ اختیار کرے، اسی طرح ہم یہ بھی کسی صورت قبول نہیں کریں گے کہ دیوبند سے محبت کے نام پر ندوہ یا ندوی فضلاء کو نشانہ بنایا جائے۔یہ انتہائی مذموم حرکت ہے،
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا،بالخصوص فیس بک پر،دونوں جانب سے چند ناتجربہ کار نوجوان ایسے بیانات اور تبصرے کر رہے ہیں جو ان دو عظیم علمی اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کے مترادف ہیں۔
اصل بحث تو مناظرہ کی افادیت اور شرحِ عقائد کی نصاب میں شمولیت و علمی اہمیت جیسے سنجیدہ علمی موضوعات پر تھی،جبکہ نصاب سازی اداروں کے ذمہ داران کا کام ہے،مگر ہمارے بعض طلبہ اور فضلاء نے اسے ذاتی، جذباتی اور غیر علمی رخ دے کر ایسا منفی ماحول پیدا کر دیا جو نہ صرف افسوسناک بلکہ خطرناک بھی ہے۔
یہ حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلام کی دعوت و اشاعت کے لیے دیوبند کا تصلّب فی الدین اور ندوہ کا توسّع یعنی وسعتِ فکر دونوں ناگزیر ہیں۔اگر داعی میں تصلّب نہ ہو تو وہ مرعوب ہو جاتا ہے،اور اگر وسعتِ فکر نہ ہو تو وہ اپنے دعوتی کردار سے محروم ہو جاتا ہے۔آج امت کو ایسے علمی،متوازن اور باوقار علماء کی ضرورت ہے جو جدید اسلوبِ تعبیر کے ساتھ دین حنیف کا پیغام پیش کر سکیں نہ کہ ایسے غیر تربیت یافتہ طلبہ و فضلاء کی جو گالی گلوچ،بازاری زبان اور اشتعال انگیزی کو دعوت و علم کا نام دے بیٹھیں۔
ہم سینکڑوں ندوی فضلاء کو جانتے ہیں جو آج کے اس تاریک دور میں دینی و دعوتی فرائض انجام دے رہے ہیں،
آئیے!ہم سب مل کر ایسے طرزِ عمل سے واضح اور دوٹوک برأت کا اعلان کریں،اور ایسے افراد کو سوشل میڈیا پر دیوبند،ندوہ یا کسی بھی ادارے کا نمائندہ بننے کا موقع نہ دیں۔علم، حکمت، وقار اور باہمی احترام ہی ہمارے اسلاف کی پہچان ہے اور اسی روایت کو زندہ رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔(فیس بک سے)







