ملاحظات :عبدالحمید نعمانی
یہ جاننے کی بڑی ضرورت ہے کہ ہندوتو وادی عناصر، سناتن، سنسکرتی کے نام پر ہندو مسلم اتحاد، مشترکہ اور ہندستان کے ملواں تہذیب و تمدن کا پل توڑ کر سماج کو فرقہ پرستی کے سمندر میں بہا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، بہت سے دیگر مراسم و روایات کی طرح ملک کے مختلف حصوں خصوصا ناگری، دیو ناگری، اردو کے علاقوں میں ہندو مسلم کے درمیان قائم رابطے کو ختم کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں، شاہی اسنان اور ایشور، اللہ میں تفریق کر کے نفرت و بیزاری کا کھلے عام اظہار کیا جا رہا ہے، ایک طرح سے روحانی، کنبھ، کنبھ میلے کا بھی فرقہ پرستی اور مختلف کمیونٹیز میں دوری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے معروف مسلم شخصیات پر حملے میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایسا کرنے والے بھارت کی مشترکہ تہذیبی تاریخ اور ہندو مسلم کے خوش گوار تعلقات اور ان کے اچھے نتائج و اثرات سے بڑی حد تک ناواقف و نابلد ہیں، یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ ایسے عناصر کو، صاف نظر آتا ہے کہ اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہے، یہ دقت بھی ہے کہ برہمن واد ہندوتو کے علمبردار ،ہر زمانے میں نفرت اور تفریق و تقسیم میں اپنی زندگی سمجھتے رہے ہیں، بجرنگ بلی اور علی رض میں کبھی بھی کوئی بیزاری، دوری نہیں رہی ہے، یہ اور بات ہے کہ بجرنگ بلی کے بر عکس علی رض ایک تاریخی کردار ہے، لیکن تاریخ و تہذیب سے دور و نفور کئی سارے ہندوتو وادی عناصر سناتن، سنسکرتی کے نام پر علی، میاں، اردو، کو بجرنگ بلی، رام، کرشن، مدن، ہندی میں آمنے سامنے کر کے تصادم کرانے کی مذموم سعی کرتے نظر آتے ہیں، وہ تاج محل کے علاوہ دیگر مسلم، اسلامی اور اردو فارسی والے ہندستانی ناموں اور شناختوں کو سناتن، سنسکرتی کا حوالہ دے کر مٹانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اس سلسلے میں یوگی جی نے انڈیا ٹی وی پر رجت شرما بات چیت کرتے ہوئے انتہائی فرقہ وارانہ جارحیت پر مبنی خیالات کا اظہار کیا تھا، ایسے لوگوں کو اس کا بالکل بھی شعور و آگہی نہیں ہے کہ علی، بجرنگ بلی، اردو ہندی، رام، رحیم، ایشور، اللہ، میاں، ٹھاکر، پنڈت، مولانا، عید، دیوالی، صوفی، سنت، ہندو، مسلمان، ہندو مت، اسلام وغیرہم سب بھارت کا حصہ ہیں، اس معاملے میں اپنی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے اپنے اپنے طور سے، ایک دوسرے کی آزادی کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی چھوٹ ہے، اس کے تحفظ کی ضمانت ملک کے آئین نے بھی دی ہے، ایم پی کے وزیر اعلی موہن یادو کی طرف سے، اردو، فارسی، عربی والے ناموں کو بدلنے کی کوشش، بھارت کی مشترکہ تہذیب و روایت کے سراسر خلاف اور کھلی فرقہ پرستی ہے، وہ ہندوتو وادی عناصر اور برہمن وادیوں کی نظر میں مقبول و مرغوب بننے کے لیے، یادو ہوتے ہوئے بھی ان سے بھی بڑھ کر، اسلام، مسلمانوں، اردو فارسی، عربی والے ناموں سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، وہ جے شری رام، جے کرشن کے نعرے بزور لگوانے کا عزم رکھتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگ رام، کرشن اور ان کے کردار و روایات سے زیادہ واقف نہیں ہیں، صرف ناموں کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، یوگی، یادو وغیرہ جس طور، طرز سے سناتن، سنسکرتی کے نام پر زور زبردستی کرتے نظر آتے ہیں اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کے نظریہ و عمل میں کوئی اپیل، طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی قوت، دیگر انسانی اقدار، مساوات وغیرہ کی بنیادوں کو تو پہلے ہی کھو چکے ہیں ،اسلام مسلم دشمنی کی مارکیٹنگ سے ،کوئی مضبوط آدرش نہ ہونے کی وجہ سے، روایتی تفریق و نفرت اور اونچ نیچ پر مبنی چار طبقاتی نظام کے زیر اثر ہندو اکثریتی سماج کا ایک بڑا حصہ متاثر ہو کر فرقہ پرستی کے پلڑے میں وزن ڈال تو دیتا ہے لیکن نظریاتی و اخلاقی طور سے اس کا بھی ثبوت فراہم کر دیتا ہے کہ برہمن واد پر مبنی ہندوتو کوئی ایسا طرز حیات نہیں ہے جسے اپنا کر کوئی بھی انسانی سماج، نجات و فلاح سے ہم کنار ہو سکتا ہے، کچھ مراسم، تفریح، شور شرابے سے انسانی وقار و عظمت اور خالق و خلق میں بہتر رشتے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا ہے، بی جے پی لیڈر پریم شکلا جیسے لوگوں کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ پیغمبر صاحب(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پہلے ہی سے کنبھ، مہا کنبھ اور دیگر سناتن روایات و مراسم جاری ہیں، جب برہمن وادی سماج نے کوئی مستند تاریخ ہی نہیں لکھی ہے تو پہلے، بعد کی بحث بے معنی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، 570/571 ۶ عیسوی ہے، جب کہ ساتویں صدی عیسوی تک کنبھ، مہا کنبھ میلا، ہندو روایات میں شامل نہیں تھا، اس کا ذکر، وید، اپنشد، پران، رامائن، مہا بھارت اور قدیم دھرم گرنتھوں میں۔کہیں نہیں ہے، ہر معاملے میں اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر ضروری طور سے نام لے آنا ذہنی صحت پر سوال کھڑا کرتا ہے، عوامی و پرانک کہانیوں کی بنیاد پر مستند و عملی توارث کی تاریخ و تہذیب کو مسترد کر کے اپنے حق کو ثابت کرنے میں کوئی معقولیت نہیں ہے، لیکن بابری مسجد کے سلسلے میں رام مندر کے نام پر یہی کیا گیا اور جامع مسجد سنبھل کے متعلق بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم تمام مذاہب کے تہذیبی و مذہبی مظاہر و مراسم کی ادائیگی کی آزادی کے حق میں ہیں، اس کا تحفظ ہونا ہی چاہیے، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے کردار کو مجروح کرنے کے مقصد سے من گھڑت کہانیوں کو تاریخ بنانے کی تائید و تصدیق کا کوئی جواز نہیں ہے، ملک کے تمام مذاہب و روایات کے حامل باشندوں کو اپنے نظریات و اعمال کی تبلیغ و تشہیر کی آئینی آزادی حاصل ہے، وہ اپنی شناختوں کے ساتھ ملک میں آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ہندوتو وادی ذہنیت کے تحت بھارت کے مذہبی و تہذیبی تنوعات کو زور زبردستی ختم کرنے کی کوشش ، یوپی، ایم پی، مہا راشٹر اور دیگر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بہت واضح شکل میں نظر آتی ہے، یہ قطعی طور سے ملک کے مشترکہ تہذیبی پل اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑنے کی مذموم سعی ہے، بھارت میں بہت سی زبانیں رائج ہیں اور ان میں بہت سے مقامات اور چیزوں کے نام رکھے گئے ہیں، یہ مختلف قسم کے پھولوں کے گلدشتے کی طرح ہے، اس سے تہذیبی تنوعات کی خوبصورتی کا اظہار ہوتا ہے، بھارت کسی ایک مخصوص تہذیب کا ملک نہیں ہے یہاں بہ قول ڈاکٹر امبیڈکر، بہت سی تہذیبیں ہیں لیکن سنگھ اور دیگر ہندوتو وادی تنظیمیں و عناصر ملک میں واحد برہمن وادی تہذیب کی باتیں کر کے بھارت کو ایک مخصوص سمت اور ڈگر پر لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، یہ تاریخ کے انکار کا حصہ ہیں، تاریخی خلا کو غلط بیانیے سے پر کرنے کی مہم کے تحت بہت سے غلط دعوے بھی کیے جاتے ہیں، ان کے ہی زمرے میں سنگھ سربراہ ڈاکٹر بھاگوت کا یہ بیان بھی آتا ہے کہ ملک کو حقیقی آزادی رام مندر کی تعمیر کے دن حاصل ہوئی ہے، آر ایس ایس کا ملک کی تحریک آزادی میں کوئی خاص حصہ و کردار نہیں ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے آزادی کا الگ معنی پیش کر کے اسے مقبول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ہر واقف حالات و روایات کو معلوم ہے کہ رام کے نام پر مندر کی تعمیر سے رام کے آدرش کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے کہ رام چندر کے عہد میں مندر، مورتی کا کوئی وجود نہیں تھا، جو رام کے وقت میں آدرش نہ ہو وہ بعد کے خراب زمانہ کلجگ میں آدرش ،خود مختاری اور آزادی کی علامت کیسے بن سکتی ہے؟ عظیم شخصیات، زبان، سنسکرتی کے نام پر سماج کو ہندو مسلم خانے میں تقسیم کرنے کی کوششوں کی مزاحمت و مخالفت ملک و قوم کے مفاد میں ہے، ہندستان، تمام ہندستانیوں کا ہے نہ کہ کسی ایک ہندو کمیونٹی کا، ایم پی کے وزیر اعلی نے جس طرح مولانا گاؤں لکھنے میں قلم اٹکنے کا بیان دیتے ہوئے دیگر مسلم شناخت والے گاؤں کے نام تبدیل کر کے ہندو نام رکھنے پر عمل پیرا ہیں اس سے فرقہ وارانہ زہریلا ذہن پوری طرح اجاگر ہو گیا ہے نیا کچھ بنانے کی تو توفیق نہیں ہوتی ہے لیکن دوسروں کے بنائے پر اپنا نام چڑھا دینے سے کسی نئے بھارت کی تعمیر نہیں ہو سکتی ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ ہندی ہندوی، اردو کا ہی نام ہے، دیو ناگری کو ہندی نام دے کر اردو پر قبضہ کرنے کی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے، پہلے بدھ ناموں کو مٹا کر ان کا برہمنی، ہندو کرن کیا گیا، اب مسلم، اسلامی ناموں کو مٹا کر ان کا ہندو کرن کیا جا رہا ہے، یہ بلا شبہ تنگ نظری، بھارت کے تنوعات اور مشترکہ تہذیب و وراثت کے پل کو توڑ کر فرقہ وارانہ سماجی رابطے کو ختم کرنے کی غلط مہم ہے، اس سے اصل بھارت کا تصور و تصویر دونوں تباہ ہو جائیں گے،