تحریر: تنوشری پانڈے
(جہانگیر پوری کی یہ رپورٹ ڈرانے اور کل کے بھارت کی رونگٹے کھڑے کردینے والے بھیانک چہرے کی عکاسی کرتی ہے ،جس میں ایک خاص کمیونٹی سے نہ ڈرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کی ذہنی تربیت دی جارہی ہے ۔بریانی ،قورمہ کے نشہ میں ڈوبے نوجوانوں اور ان کی قیادت کو ضرور اسے پڑھنا چاہیے )
15 سالہ ساگر(تبدیل شدہ نام )کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت اپنا ہوم ورک کرنا چاہتا تھا لیکن ہنومان ریلی میں شامل ہونا اس سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ انہوں نے کہا، ‘’شاکھا تو بولچھے ( ہماری آر ایس ایس شاکھا )نے ہمیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔‘
اس کے ارد گرد کھڑے چھ سے سات اور بچے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ ان میں سے کچھ کی عمرتو 10 سال کے قریب ہو گی۔ ان میں سے کچھ بچوں نے اس دن ہنومان جینتی ریلی میں حصہ لیا تھا۔ وہ ریلی جو دہلی کے جہانگیر پوری کے بلاک جی سے شروع ہوئی اور فرقہ وارانہ تصادم میں بدل گئی۔ اس دن کی وہ تیسری ریلی تھی۔ اس کی ویڈیو میں کئی نوجوان لڑکوں کو ہاکی اسٹک، تلواریں اور یہاں تک کہ بندوقیں بھی لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔ بلاک جی میں زیادہ تر بنگالی ہندو آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق نچلی ذات سے ہے۔
بچوں کا کہنا ہے کہ ان کی ریلی میں شامل ہونے کا ان کا یہ فیصلہ ایک لمحے میں نہیں لیا گیا تھا ۔ ان کے مطابق وہ مقامی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی کال پر خصوصی طور پر یہاں آئے تھے۔ اس شاخ سوکین سرکار چلاتا ہے۔ سرکار جہانگیرپوری تشدد کے سلسلے میں اب تک گرفتار کیے گئے 23 لوگوں میں سے ایک ہے۔ ان کے بھائی سریش نے بھی علاقے کے بچوں کو ریلی میں شامل ہونے کے لیے تیار کیا تھا۔ وہ ہندو واہنی اور بجرنگ دل کا رکن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے، 43 سالہ سریش سرکار نے واضح کیا کہ ذات پات کے نام پر ہمیشہ مظلوم رہنے والی برادری کے لیے یہ ایک ایسا طریقہ تھا کہ وہ اپنی وسیع تر ہندو شناخت کے ذریعے ایک مشترکہ دشمن یعنی مسلمانوں کے خلاف اپنی موجودگی ظاہر کرے۔
وہ بنگالی میں کہتا ہے ’اچھا ہوا کہ جھڑپیں ہوئیں… ورنہ ہندو کیسے جاگیں گے؟‘
سریش سرکار ایک فوڈ ڈیلیوری ایجنٹ ہے۔ اس کے علاوہ وہ کباڑ جمع کرنے اور بیچنے کا کام بھی کرتا ہے۔ دہلی پولیس نے بھی سرکار سے پوچھ گچھ کی تھی لیکن بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔ وہ کہتا ہے کہ اب وہ اچھے کام – اگلی نسل کو لڑنے اور ضرورت پڑنے پر دھرم کے نام پر قتل کرنے کے لئے تیار کرنا ۔ کو جاری رکھنے کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہے ۔
بنگالی کمیونٹی کے لیے ہنومان اور ہندوتوا 101
درگا پوجا بلاک جی کے بنگالیوں کے لیے ہمیشہ سے ایک بڑا مذہبی پروگرام رہا ہے۔ درحقیقت اس سال سے پہلے کبھی کسی نے ہنومان جینتی نہیں منائی تھی۔ ان دونوں سرکار بھائیوں نے سب سے پہلے ایک چھوٹے سے قریبی مندر میں ہنومان کی مورتی نصب کی اور مکینوں سے ریلی میں شامل ہونے کی اپیل کی۔
اسے بزرگوں اور بچوں کی طرف سے حوصلہ افزا جواب ملا۔ درحقیقت، وہاں رہنے والے لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ واضح ہوا کہ پسماندہ طبقوں کے بہت سے لوگوں نے ’ہندو توا‘ میں شامل ہو کر ایک مضبوط ادارہ اور طاقت کا احساس حاصل کیا۔
اوپر جس بچے کے ساتھ کی گئی ہے ، وہ سریش سرکار کے بڑے بیٹے کشور ساگر ہے ۔ اس بار وہ 10 ویں کلاس کے بورڈ کاامتحان دیں گے لیکن جھڑپ کے بعد سے وہ اسکول نہیں جا پایا ہے ۔ ان کی نظر میں یہ ’ ہندوتوا کے لئے ‘ ایک چھوٹی سی قربانی ہے ۔
ریلی میں ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس پر اس نے کہا، ‘کیونکہ مسلمان بھی محرم میں اپنے ساتھ تلواریں اور دیگر ہتھیار لے جاتے ہیں… ہم کیوں نہیں؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ سب کہاں سے سیکھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے چچا سوکین سرکار جو کہ 10 سال سے زائد عرصے سے برانچ چلا رہے ہیں، نے انہیں ایسا بتایا ہے۔
ریلی میں شریک دوسرے نوجوان بھی اسی طرح کے الفاظ فخر سے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ’ہندو توا‘ کا مطلب بھی بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن شاکھا اور ان کے پریوار کے ممبران نے انہیں جو بھی سکھایا ہے ، اس پر وہ بھروسہ کرتے ہیں ۔
آر ایس ایس کے دہلی ریاستی ایگزیکٹیو ممبر راجیو تولی نے سنگھ کے ساتھ سوکین کے ’آفیشل‘ وابستگی سے انکار کیا لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف کیا کہ بلاک جی کے رہائشی نے ’سماجی کام‘ میں ’مدد‘ کی تھی۔
‘ہمیں سکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کبھی ڈرنا نہیں
آٹھویں جماعت میں پڑھنے والے 13 سالہ طالب علم روہن (تبدیل شدہ)کی آنکھوں میں شرمندگی ہے۔ وہ ریلی کا حصہ تھا لیکن تشدد شروع ہونے پر بھاگ گیا۔
روہن نے کہا، ‘بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے ہماری تلواریں چھیننا شروع کر دیں اور ہم وہاں سے بھاگنے لگے۔ مجھے برا لگتا ہے کہ میں بھاگ گیا ہوں۔ ہمیں شاکھا میں بہادر بننا سکھایا گیا ہے اور مسلمانوں سے کبھی نہ ڈرو۔ ہم ہندوؤں کو اپنے ملک کو ان سے بچانا ہے۔
ریلی کے بعد سے وہ خاموش ہے اور اس نے جو تشدد دیکھا ہے اس سے وہ دکھی ہے لیکن اس کے لیے وہ صرف مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ 35 سالہ سکنیہ ہلدر کو فخر ہے کہ اس کے بیٹے نے ریلی میں حصہ لیا، حالانکہ وہ بھاگ گیا تھا۔
اس کی آواز میں جوش تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہاں، میرا بیٹا ریلی میں گیا تھا اور اس نے کچھ دیر تلوار بھی اٹھا رکھی ہو گی لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر وہ بچے ہیں۔ ہمارا تعلق کسی نچلی ذات سے ہو سکتا ہے لیکن ہم پہلے ایک کٹر ہندوتوا ہیں۔
وہ خبردار کرتی ہیں کہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کی آڑ میں نہ آئیں۔ وہ کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان شیطان ہیں۔ اگر موقع ملا تو وہ ہم پر غلبہ حاصل کریں گے، اس لیے انہیں ملک میں انگوٹھے کے نیچے رکھنا ہوگا۔
قریب ہی 15 سالہ سوہم(تبدیل شدہ نام) کا گھر ہے۔ اس کے خیالات بھی روہن سے مختلف نہیں ہیں۔ اس کے والد دہلی کے وزیر آباد میں ایک فیکٹری میں صفائی ملازم ہے اور انہوں نے یہ سب کچھ سوہم کو سکھایا ہے۔
سوہم نے کہا، ‘میرے اسکول میں مسلمان لڑکے ہیں۔ وہ اچھے لگتے ہیں لیکن میرے والد کہتے ہیں کہ اس پر کبھی بھروسہ نہ کرنا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس نے مجھے کشمیر کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں مسلمانوں نے شیر خوار بچوں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں کبھی کسی مسلمان سے دوستی نہیں کروں گا۔ میں ان سے نفرت کرتا ہوں ۔
جیسا کہ دی پرنٹ نے پہلے اطلاع دی تھی، جہانگیرپوری کے کئی نوجوان باقاعدگی سے ویڈیوز، میمز، فارورڈز اور بھگوا پاپ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں نہ صرف ہندو پٹھوں کی طاقت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ مسلم مردانگی کا خوف بھی بڑھاتی ہیں۔ ملک کو بڑھتی ہوئی مسلم آبادی سے ’بچانے‘ کے لیے تمام ذاتوں اور ہندوؤں کو متحد ہونا چاہیے۔ کوئی بھی اس مواد یا عسکریت پسند قوم پرستی کے ’حقائق‘ پر سوال نہیں اٹھاتا جسے کچھ ٹی وی چینلز اور فلمیں فروغ دے رہے ہیں۔
اس سب کے درمیان، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)جیسی تنظیمیں ایسی میمز لے کر آتی ہیں جو لوگوں میں خوف پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو متحرک کرتی ہیں تاکہ وہ حقیقی’ ‘کارروائی‘ کے راستہ کھولتے ہیں۔
مثال کے طور پر، بلاک جی کا رہائشی 16 سالہ سونکر(تبدیل شدہ نام) کو لے سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ شاکھا جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں ہندو ہونے کا ’اعتماد‘ ملتا ہے۔
سونکر نے کہا، ‘سوکین دا اور سریش دا میرے بھائیوں کی طرح ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ مسلمان بنگلہ دیش سے ہیں۔ یا تو وہ جے شری رام کہیں یا ہمارا ملک چھوڑ دیں۔ سوکین دا کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے ان پر قابو نہ پایا تو وہ ہمارے ملک کو کشمیر اور پاکستان جیسا بنا دیں گے۔
سونکر کا کہنا ہے کہ وہ بھی ریلی میں شامل تھا۔ رقص کر رہے تھے اور ایک آدمی کا پیچھا کر رہے تھے جو بندوق لہرا رہا تھا۔ اس پستول نے اس نوجوان کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ اسے اس سے تحفظ کا احساس ضرور مل رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ ہندوؤں کے لیے نہیں بلکہ دوسری برادریوں کے لوگوں کے لیے ہے۔
’ضرورت پڑنے پر میرے بیٹے کو جان سے مارنے کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا‘
پرتشدد ریلی کے منتظم بجرنگ دل کے رکن سریش سرکار پوری طرح سے لاپرواہ نظر آرہےہیں۔ سرکار کا تعلق مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے جیا گنج سے ہے۔ جب وہ کام کی تلاش میں 30 سال قبل دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں آیا تو اس کی عمر صرف 13 سال تھی۔
آج وہ کہتے ہیں کہ انہیں کام کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ ایک ’اصلی ہندو‘ کے طور پر اپنے ملک کے لیے مرنے کے لیے تیار ہے اور نوجوان نسل کو ایسا کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے۔
سرکار کا کہنا ہے کہ اس کے اور بجرنگ دل کے کچھ دوسرے ارکان کے پاس ہاکی اسٹکس اور تلواریں تھیں، جو بچوں میں تقسیم کی گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بھارت میں رہنا ہے تو جے شری رام کہنا ہے ‘ جیسے نعرے انہوں نے ہی لگائے تھے ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مقصد لوگوں کو اکسانا ہے تو انہوں نے اس کی تردید کی۔’یہ مسلمانوں کو دکھانے کے لیے تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے،‘وہ کہتے ہیں۔
ان کے مطابق اس ریلی کی تجویز وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے مقامی کارکنوں نے دی تھی۔ اس ریلی کا مقصد بڑے مقصد کے تئیں اس کمیونٹی کے لوگوں کی وفاداری کو سامنے لانا تھا۔ سرکار کا کہنا ہے کہ تنظیموں کے کارکنوں نے بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر ‘کچھ بھی ’ناخوشگوار‘ ہوتا ہے تو وہ اپنا تعاون فراہم کریں گے۔ وہ کہتے ہیں، ‘اگر کل فسادات ہوتے ہیں تو جو کوئی خود کو حقیقی ہندو سمجھتا ہے، اسے بھی مارنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایک پسماندہ کمیونٹی کے رکن کے طور پر خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں، لیکن اب انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک بڑی ہندو قوم پرستی کا حصہ ہیں۔ وی ایچ پی اور بجرنگ دل ذات پات کی حدود کو دھندلا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیکھو ملک بھر میں کیا ہو رہا ہے۔ مسلمان ہر جگہ ہندوؤں کو مار رہے ہیں۔ یہ سب دہشت گرد ہیں۔ ترنمول کانگریس کے مسلمان غنڈوں نے ہندو خاندانوں کو قتل کیا، مسلمانوں نے کشمیر میں لاکھوں پنڈتوں کو قتل کیا- ہم یہ سب کبھی نہیں بھولیں گے۔
سرکارپہلے ہی ہندوتوا کو فروغ دینے کے لیے بہت پرجوش ہے۔’ اس بار ہم تعداد میں کم تھے… آپ دیکھیں، اگلی بار ہم انہیں مار دیں گے،‘ وہ پیار سے اپنے 15 سالہ بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
’’بھول جاؤ مجھے، میں اپنے بیٹے کو بھی حوصلہ دکھا رہا ہوں۔ وہ شیر ہے۔ ضرورت پڑنے پر مارنے کو تیار ہوں گے۔ اس لیے ہم نے بچوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ریلی میں شرکت کریں تاکہ وہ بھی تیار ہو سکیں۔‘ یہ سن کر اس کی بیوی اور 8 سالہ بیٹا مسکرانے لگے۔
(ضروری وضاحت: رپورٹ میں موجودحقائق،واقعات،اعدادوشمار،بیانات مضمون نگار کے ہیں ’روزنامہ خبریں ‘پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ادارہ)
(بشکریہ: دی پرنٹ )