نئی دہلی:اسلامک فقہ اکیڈمی کی جانب سے اکیڈمی کے سمینار ہال میں دوروزہ سمینارکا انعقاد ہوا، جس کی افتتاحی نشست کی صدارت اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری وآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی صدر بورڈ نے اپنے خطاب میں اپنے مقالہ کے حوالہ سے کہا کہ موجودہ حالات میں ہر مسلم آبادی میں کونسلنگ سینٹر ہونا چاہئے، جس میں ایک عالم دین، ایک ماہر نفسیات یا معاملات طے کرنے کا تجربہ کار، اور ایک ایسا شخص شامل ہو جو سماج میں اثر ورسوخ رکھتا ہو اور فریقین اُس کا اخلاقی دباؤ محسوس کرتے ہوں۔ ایسا کاؤنسلنگ سنٹر ہر مسجد کے تحت، یا آبادی میں مدرسہ ہو تو اس کے تحت قائم کیا جاسکتا ہے۔ ملی تنظیموں، علماء اور سماجی رہنماؤں کو اس پہلو پر فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ قانونِ شریعت سے متعلق مسائل میں غیر کی مداخلت سے بچا جاسکے۔
پروگرام کا آغاز عزیز سعد اشرف کی تلاوت سے ہوا، نعت پاک عزیزم محمد ہاشم نے پیش کیا۔ مولانامحمد عبید اللہ اسعدی نے اکیڈمی کی خدمات پر روشنی ڈالی
مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ آج کل نوجوان یا تو جذبات میں آکر متاثر ہوجاتے ہیں، یا پھر مایوسی کے شکار ہوجاتے ہیں، مایوسی کا رجحان بہت ہی خطرناک ہے، نوجوانوں کو صحابہ کرام کے واقعات پڑھنے چاہئیں کہ ان کو کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اور اپنےاسلاف کی تاریخ بھی پڑھنی چاہئے، موصوف نے اپنے مقالہ کے حوالہ سے مختلف نکات کا ذکرکیا مختلف ایکٹ پر بھی روشنی ڈالی ، دفعہ ۴۴ کی خطرناکی کو بھی واضح کیا،
افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحیم مجددی نے مرحوم امین عثمانی صاحب کی تعریف کی کہ وہ کس طرح نئے موضوعات پر پروگرام کرانے کے لئے بے چین رہتے تھے، موصوف نے ارتداد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔
مولانا رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ الحاد آج کے دور کا سب سے بڑا فکری چیلنج ہے، مولانا نے سماجی حالات کو سدھارنے پر زور دیا اور کہا کہ اس کی شروعات علماء ورہبران کو پہلے اپنے گھروں سےشروعات کرنی چاہئے، تاکہ سماج میں اچھا اثر پڑسکے۔۔مولانا نے حل کے طور پر ملک میں تفہیم شریعت کے پروگرام کرانے پر زور دیا۔
مفتی انور علی اعظمی نے جہیز کو موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا، بنارس ومالیگاؤں کی کچھ مثالیں بھی پیش کی۔ موصوف نے مخلوط تعلیم کی برائیاں بھی گنائیں۔افتتاحی اجلاس کی نظامت مفتی احمد نادر قاسمی نے انجام دی۔
سمینار کی دوسری نشست کا آغاز ۲۷؍جولائی کی صبح دس بجے ہوا، جس کی صدارت مفتی انور علی اعظمی نے کی، نظامت کے فرائض مفتی امتیاز احمد قاسمی نے انجام دیئے، اس نشست میں چار مقالے پیش کئے گئے، پہلا مقالہ مولانا فضل الرحیم مجددی صاحب کا تھا جس کا عنوان تھا: مسلم اوقات اور حکومت کی پالیسی۔ ایک مطالعہ۔ دوسرامقالہ ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی کا تھا ، جس کا عنوان تھا: مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق کی راہیں۔ تیسرا مقالہ مفتی احمد نادر قاسمی صاحب کا تھا، جس کا عنوان تھا: موجودہ حالات میں اسلامی شناخت کا تحفظ۔ چوتھا اور آخری مقالہ مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کا تھا ، جس کا عنوان تھا: مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات۔ اسباب وحل۔اخیر میں صدر نشست مفتی انور علی اعظمی صاحب نے چاروں مقالے پر کچھ تبصرے کے بعد اتحاد واتفاق پر زور دیا اور فرمایا کہ موجودہ دور میں اتحاد واتفاق میں اضافہ ہوا ہے جس میں فقہ اکیڈمیوں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا خاص کردار ہے۔
سمینار کی تیسری نشست کا آغاز بارہ بجے دن میں ہوا، اس نشست کی صدارت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب نے کی، نظامت کے فرائض ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے انجام دیئے، اس نشست میں بھی کل تین مقالے پیش ہوئے، پہلا مقالہ مولانا اجمل فاروق ندوی کا تھا، جس کا عنوان تھا: مسلم سماج میں دین سے بے رغبتی کے بڑھتے رجحانات۔ اسباب وعلاج۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کا تھا، جس کا عنوان تھا: خاندانی زندگی میں بکھراؤ۔ اسباب وعوامل اور حل۔ تیسرا مقالہ مولانا امتیاز احمد قاسمی کا تھا، جس کا عنوان تھا: مطلقہ اور بیوہ خواتین کے مسائل اور ان کا حل۔اخیر میں صدر اجلاس مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ خاندان کو بکھراؤ سے بچانے کےلئے قرآن وحدیث میں کافی زور دیا گیا ہے، آج ضرورت ہے کہ سماج میں مختلف مقامات پر کاؤنسلنگ سنٹر قائم کئے جائیں،
اس سمینار کی آخری نشست مولانا رضی الاسلام ندوی کی صدارت میں شروع ہوئی، اس میں بعض مقررین نے اظہار خیال کیا، خاص طور پر مفتی سلطان کشمیری، صحافی عمیر کوٹی، مولانا عبد الحمید نعمانی، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور قاسم سید ، ان سب نے مختلف سماجی، سیاسی، معاشی موضوعات پر اپنی بات رکھی صدر اجلاس مولانا رضی الاسلام ندوی کی گفتگو کے بعد اجلاس اختتام کو پہنچا۔








