چین عنقریب ایران اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کرنے جا رہا ہے۔ چینی وزارت دفاع نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشقیں ایران کے قریب سمندر میں کی جائیں گی۔ادھر ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ فوجی مشقیں پیر کو خلیج عمان میں ’چابہار بندرگاہ کے قریب‘ جنوب مشرقی ایران میں شروع ہوں گی۔یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایران، روس اور چین کے درمیان مشترکہ بحری مشقیں ہونے جا رہی ہوں۔ تاہم تینوں ممالک کے درمیان موجودہ فوجی مشقیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب اسرائیل اور امریکہ نے حالیہ مہینوں میں بارہا ایران کو دھمکایا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام روکنے کے لیے اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی تھی کہ انھوں نے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھا ہے۔جس کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کا بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے گو کہ امریکی صدر کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن انھوں نے یورپی طاقتوں کو ضرور تنقید کی نشانہ بنایا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے سرکاری عہدیداران کے ساتھ اپنی گفتگو میں مذاکرات پر اصرار کرنے والی ’ہٹ دھرم حکومتوں‘ پر تنقید کرتے ہوئے یورپی ممالک کو ’بے شرم اور اندھا‘ قرار دیا کیونکہ انھوں نے جوہری معاہدے پر علمدرآمد نہ کرنے پر تہران پر تنقید کی تھی۔
پاسداران انقلاب سمیت مشقوں میں کون شامل؟
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق ان فوجی مشقوں میں نصف درجن ممالک بطور مبصر شریک ہوں گے۔ جن میں آذربائیجان، جنوبی افریقہ، پاکستان، قطر، عراق یو اے ای شامل ہیں۔ادارے کے مطابق یہ فوجی مشق بحر ہند کے شمال میں ہوں گی اور اس کا مقصد خطے کی سلامتی اور شریک ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعاون کو بڑھانا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان مشقوں کا مقصد باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک کی فوجیں ایسی جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں۔
••ٹرمپ کی انٹری اور امریکہ ایران کشیدگی میں حالیہ اضافہ
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں ان سے جوہری پروگرام پر بات کرنے کو کہا گیا ہے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کے جوہری پروگرام پر ٹرمپ کی تجویز کو ’ظالمانہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔تاہم اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر کو ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ابھی تک موصول نہیں ہوا۔
تاہم ایران کی جانب سے امریکی پیشکش کو ٹھکرانے کے ایک دن بعد ایران، روس اور چین کے درمیان نئی فوجی مشقوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔واضح رہے کہ دو روز قبل وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں بنیادی طور پر امریکہ کی معاشی صورتحال پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اور اسی دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’آپ بہت جلد ایران کے بارے میں خبریں سنیں گے۔‘جس کے بعد ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھنے اور انھیں مذاکرات کی دعوت دینےکی تصدیق کی گئی۔تاہم اس وقت اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے کہا تھا کہ انھیں ٹرمپ کی جانب سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
للیکن اس خبر کے سامنے آنے کے بعد خامنہ ای نے اپنے تازہ بیان میں امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ‘حکومت پر دباؤ ڈال کر’ ایران کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جا سکتا۔
انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) کے تحت وعدوں پر عمل درآمد میں ایران کی ناکامی پر تنقید کرنے پر یورپی ممالک کو ’اندھا اور بے شرم‘ قرار دیا۔یاد رہے کہ ایران نے حالیہ دنوں میں بارہا اپنے موقف پر زور دیا ہے۔دوسری جانب ایران کے اس جواب کےفوری بعد وائٹ ہاؤس نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے ایک طرح سے ایران کو دھمکی دی۔روئٹرزکے مطابق انھوں نے کہا ’ہمیں امید ہے کہ ایران اپنے عوام اور مفادات کو دہشت گردی سے بالاتر رکھے گا۔‘برائن ہیوز نے چند روز قبل ٹرمپ کے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تو یہ بہت برا ہوگا۔اس سے قبل جمعرات کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے دو راستے ہیں ’فوجی طریقہ یا سمجھوتہ ‘۔
ایسا نہیں ہے کہ معاملہ صرف امریکہ تک محدود ہے۔ امریکہ کے قریب سمجھے جانے والے ملک اسرائیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایران ان کے نشانے پر ہے۔حال ہی میں اسرائیلی فوج کے نئے چیف آف سٹاف ایال ضمیر مقرر کیے گئے ہیں جنھوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا ہے کہ سال 2025 جنگ کا سال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اور ایران پر رہے گی اور ساتھ ہی کہا کہ ‘ہم نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے اس کی بھرپور حفاظت کریں گے۔(بشکریہ بی بی سی)