تحریر:وکاس کمار
یوگی آدتیہ ناتھ کی اتر پردیش میں واپسی ہوئی ہے۔ اکھلیش یادو نے پچھلی بار سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن اکثریت سے دور رہے۔ نتائج دیکھنے کے بعد بہت سے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر مغربی یوپی میں جاٹ بی جے پی سے ناراض ہیں اور ایس پی کو ووٹ کرسکتے ہیں۔ ایس پی کو جینت چودھری سے بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ غیر یادو او بی سی کے بڑے چہروں کا بی جے پی چھوڑنے سے اکھلیش کی سیٹ بڑھ سکتی ہے۔ آئیے پہلے سے سات مرحلے کے ووٹنگ پیٹرن اور نتائج (یوپی الیکشن فیز وائز رزلٹ) سے سمجھتے ہیں کہ اکھلیش یادو نے کیا غلطی کی اور بی جے پی کو کہاں فائدہ ہوا؟
اکھلیش یادو کی غلطیوں اور بی جے پی کے فائدے کو سمجھنے کے لیے سات مرحلوں کے نتائج سے نکلے 2 فیکٹر جان لیجئے ۔
1- چوتھے مرحلے میں بی جے پی کی بہترین کارکردگی – ساتویں مرحلے میں سب سے بری
بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے چوتھے مرحلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس میں لکھیم پور کھیری اور پاسی ووٹروں کی پٹی میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔ بی جے پی پلس نے کل سیٹوں میں سے 83 فیصد پر قبضہ کیا۔ پہلے مرحلے میں بھی بی جے پی پلس نے 80 فیصد سیٹیں جیت لی تھی۔ یہاں اکھلیش یادو اور جینت چودھری کی جوڑی ناکام ثابت ہوئی۔
2- ساتویں مرحلے میں ایس پی کی بہترین کارگردی
ایس پی نے آخری مرحلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پوروانچل میں اکھلیش کے گڑھ اعظم گڑھ میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ایس پی نے 47 فیصد سیٹوں پر قبضہ کیا۔ دوسرے مرحلے میں بھی ایس پی نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ 43 فیصد سیٹیں جیتیں۔ اس کی ایک وجہ مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ 9 میں سے 6 اضلاع ایسے تھے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ اکھلیش یادو کو یہاں فائدہ ملا۔
اتر پردیش کے انتخابات 10 فروری کو شروع ہوئے اور 7 مارچ کو ختم ہوئے۔ 26 دن تک بی جے پی کو 255، ایس پی کو 111، اپنا دل (ایس) کو 12، نشاد کو 6 اور آر ایل ڈی کو 8 سیٹیں ملیں۔ اب سمجھتے ہیں کہ 1 سے 7 مرحلے کے انتخابات کے دوران الیکشن کیسے بدلتا گیا اور اکھلیش یادو اسے بھاپ نہیں سکے۔
پہلا مرحلہ: دونوں لڑکوں کی جوڑی پہلی گیند پر ہی بکھر گئی – بی جے پی کا 80 فیصد سیٹوں پر قبضہ
یوپی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اکھلیش یادو اور جینت کی جوڑی بکھرگئی۔ حالانکہ الیکشن کے دوران یہ ہوا تھا کہ ان دونوں لڑکوں کی جوڑی بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی کر رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ پہلے مرحلے میں بی جے پی نے 58 میں سے 46 سیٹیوں پر قبضہ کیا ہے۔ یعنی 80 فیصد سیٹیں۔ ایس پی کو 5 اور آر ایل ڈی کو 7 سیٹیں ملیں۔ یعنی پہلے مرحلے میں اکھلیش اور جینت چودھری کی ہوا صرف ٹی وی یا اخبارات میں نظر آتی تھی۔ زمین پر نہیں۔
پہلے مرحلے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی: 46
ایس پی: 5
بی ایس پی : 0
آر ایل ڈی: 7
آئی این سی: 0
کل: 58
فیز 2: مسلم ووٹر نے کھ دیر پاری سنبھالی – ایس پی کی کارگردی میں قدرے بہتری آنے لگی
دوسرے مرحلے میں 9 اضلاع کی 55 نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ جس میں 6 اضلاع امروہہ، سہارنپور، بجنور، رامپور، مرادآباد اور بریلی ایسے ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ یہاں بمپر ووٹ ڈالے گئے۔ اس کا فائدہ اکھلیش یادو کو بھی ملا۔ بی جے پی کو 31 اور ایس پی کو 24 سیٹیں ملیں۔ یعنی ایس پی نے 43 فیصد سیٹوں پر قبضہ کر لیا۔
فیز 2 میں ایس پی نے مسلم ووٹروں پر بھروسہ کرتے ہوئے بی جے پی کو کچھ مقابلہ دینے کی کوشش کی۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک رفتار بن رہی ہے، لیکن بی جے پی کے انڈر کرنٹ کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں سکی۔
دوسرے مرحلے کے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی : 31
ایس پی: 24
بی ایس پی: 0
آر یل ڈی : 0
کل : 55
تیسرا مرحلہ: ہاتھرس -بکرو سے ایس پی کو فائدہ نہیں،یادو لینڈ نہیں آیا اکھلیش کے کام
یوپی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں یادو لینڈ کو لے کر کافی بحث ہوئی۔ اکھلیش یادو، شیو پال یادو اور ہری اوم یادو جیسے بڑے چہرے میدان میں تھے۔ ہاتھرس اور بکرو کانڈ کی اسمبلی سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے تھے۔ لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس تھے۔ ایس پی صرف 23 فیصد سیٹوں پر قبضہ کر سکی۔ 59 میں سے بی جے پی کو 41، ایس پی کو 14، آر ایل ڈی کو 1 اور اپنا دل کو 3 سیٹیں ملی ہیں۔
تیسرے مرحلے کے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی : 41
ایس پی : 14
بی ایس پی: 0
آئی این سی: 0
اپنا دل (ایس): 3
کل :59
مرحلہ 4: جہاں بی جے پی کو سب سے زیادہ نقصانات کے قیاس لگے -وہیں بہترین کارکردگی
یوپی کے چوتھے مرحلے میں کسانوں کے احتجاج اور لکھیم پور واقعہ والی جگہوں پر ووٹ ڈالے گئے تھے۔ کئی سیٹوں پر پاسی ووٹر فیصلہ کن کردار میں تھے۔ یہ مرحلہ بی جے پی کے لیے بہت خاص سمجھا جاتا تھا۔ نتائج بھی اسی طرح آئے۔ 59 سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے، جس میں بی جے پی کو 48، ایس پی کو 10 اور اپنا دل کو ایک سیٹ ملی۔ اس مرحلے میں لکھیم پور کھیری میں بھی پولنگ ہوئی۔ ووٹنگ کا فیصد بھی زیادہ رہا، لیکن نتائج بی جے پی کے حق میں آئے۔ ایس پی صرف 16 فیصد سیٹوں پر قبضہ کر سکی۔
چوتھے مرحلے کے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی : 48
ایس پی : 10
بی ایس پی: 0
آر ایل ڈی: 0
آئی این سی: 0
اپنا دل (ایس): 1
کل :59
مرحلہ 5: رام مندر کا مسئلہ اور کرمی ووٹروں نے پانچویں مرحلے میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا
پانچویں مرحلے میں 61 سیٹوں پر 54 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کی سیٹ سیراتھو اور ایودھیا بھی اس مرحلے میں تھے۔ کرمی ووٹر کا کردار بڑا سمجھا جاتا تھا۔ جب نتائج آئے تو کیشو پرساد موریہ کو شکست ہوئی، لیکن رام مندر کے معاملے کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی کرمی ووٹروں نے مودی-یوگی کو ووٹ دیا۔
پانچویں مرحلے میں 61 سیٹوں میں سے بی جے پی کو 33، ایس پی کو 21، اپنا دل 4 اور کانگریس کو 1 سیٹ ملی۔ فیصد کے لحاظ سے بی جے پی کو 54 فیصد اور ایس پی کو 34 فیصد ووٹ ملے۔
پانچویں مرحلے کے نتائج:
بی جے پی : 33
ایس پی : 21
بی ایس پی : 0
آر ایل ڈی: 0
آئی این سی: 1
اپنا دل (ایس) 4
جے ڈی سی یو: 2
کل :61
مرحلہ 6: ایس پی نے کچھ مقابلہ کیا، لیکن منحرف ہونے والے لیڈر زیادہ کچھ نہ کر سکے
چھٹے مرحلے میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سیٹ پر پولنگ ہوئی تھی۔ 10 اضلاع کی 57 نشستوں پر 54 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ سوامی پرساد موریہ اور او پی راج بھر جیسے لیڈروں کو بھی آزمایا گیا جو بی جے پی سے الگ ہو کر ایس پی میں شامل ہوئے تھے، لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ یہ لیڈر ناکام ثابت ہوئے۔ سوامی پرساد موریہ کے کندھوں پر غیر یادو او بی سی کے ووٹ حاصل کرنے کی ذمہ داری تھی، لیکن وہ اپنی ہی فاضل نگر سیٹ سے ہار گئے۔ ایس پی کو کیا ووٹ دلاتے؟ او پی راج بھر نے اپنی سیٹ جیت لی لیکن باقی سیٹوں پر وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
چھٹے مرحلے میں 57 میں سے بی جے پی کو 35، ایس پی کو 14، بی ایس پی کو 1، کانگریس کو 1، اپنا دل 1، سہیل دیو کو 2 اور نشاد پارٹی کو 3 سیٹیں ملی ہیں۔
چھٹے مرحلے میں مسلم اکثریتی نشستوں پر زیادہ ووٹ پڑنے کا رجحان ٹوٹا تھا
1 سے 5 مرحلوں کے انتخابات میں دکھا کہ جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے، ان سیٹوں پر بمپر ووٹ پڑے۔ لیکن یہ رجحان چھٹے مرحلے میں ٹوٹ گیا۔ چھٹے مرحلے میں جن اضلاع میں ووٹ ڈالے گئے ان میں بلرام پور میں مسلم آبادی 37 فیصد، سدھارتھ نگر میں 30 فیصد اور سنت کبیر نگر میں 24 فیصد ہے۔ لیکن ووٹنگ فیصد کے لحاظ سے سب سے کم 48 فیصد ووٹ بلرام پور میں پڑے۔ سدھارتھ نگر میں 49 فیصد اور سنت کبیر نگر میں 51 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ یہ تینوں اضلاع ایسے ہیں جہاں پر سب سے کم ووٹنگ ہوئی۔ نتائج میں اس کا عکس بھی نظر آیا۔
چٹھے مرحلے کے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی : 35
ایس پی: 14
بی ایس پی: 1
آئی این سی : 1
اپنا دل (ایس) 4
سہیل دیو: 2
نشاد: 3
کل :57
فیز 7: بی جے پی کو سب سے زیادہ چیلنج ملا – ایس پی کی بہترین کارکردگی
یوپی کے ساتویں مرحلے میں پی ایم مودی کے وارانسی اور اکھلیش یادو کے پارلیمانی حلقہ اعظم گڑھ سمیت کل 54 سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے، جس میں بی جے پی کو 21 اور ایس پی کو 23 سیٹیں ملی ہیں۔ سہیل دیو کو 4 سیٹیں ملیں۔ اس میں ایس پی نے اعظم گڑھ کی تمام 10 سیٹوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی مئو اور غازی پور کی سیٹوں پر بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔
ساتویں مرحلے کے نتائج:
پارٹی سیٹ
بی جے پی: 21
ایس پی : 23
بی ایس پی: 0
آئی این سی: 0
اپنا دل (ایس) 3
سہیل دیو: 4
نشاد: 3
کل: 54
یوپی انتخابات میں اکھلیش یادو کو جینت چودھری کی وجہ سے مغرب سے بہت امیدیں تھیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پہلے ہی مرحلے میں بی جے پی نے بڑی برتری حاصل کی تھی۔ جس مرحلے میں اکھلیش کی سیٹ پر ووٹ ڈالے گئے، اس میں بھی ایس پی کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ دوسرے، پانچویں اور ساتویں مرحلے میں بی جے پی کو ضرور کچھ ٹکر ملتی نظر آیا ۔ اودھ اور بندیل کھنڈ میں بی جے پی کی کارکردگی اچھی رہی۔ 403 میں سے 223 سیٹیں ایسی تھیں جہاں ایس پی دوسرے نمبر پر رہی۔ ایسے میں، جینت چودھری کی دوستی پر اکھلیش کا حد سے زیادہ اعتماد اور منحرف ہونے والوں کے غلط اندازہ نے اکھلیش کو بھاری پڑ گیا۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ )