ملاحظات:عبدالحمید نعمانی،
سناتن دھرم، ہندوتو اور ہندو راشٹر کے قیام اور بھارت کو "ہندواستھان ” میں بدلنے کی کوششوں کے تحت، ہندستان کی تاریخ اور اس کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کا جو کھیل ماضی قریب سے حال تک جاری ہے اس کی تہہ میں جا کر ہندوتو وادی کلیت پسندی کو سمجھنے کی بڑی ضرورت ہے، ملک کے اکابر علماء و صوفیاء اور عام ہندو مسلم کے میل ملاپ سے جو ملواں تہذیب و جود میں آئی ہے اسے یوگی آدتیہ ناتھ، دھریندر شاستری، یتی نرسنہا نند جیسے لوگ اپنے فرقہ وارانہ عزائم و مقاصد کی تکمیل کی خاطر، جس نا سمجھی اور تفوق پسندی کے غلط جذبے سے ختم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، وہ بھارت کی اصل روایات اور تاریخی بہاؤ کے خلاف اور ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے، یوگی آدتیہ ناتھ، کھلی فرقہ وارانہ جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جس غلط سمت میں ملک کی اکثریت کے ایک بڑے حصے ،خاص طور سے جدید نسل کو لے جانے کی مذموم سعی کر رہے ہیں، وہ رام کا راستہ نہیں ہے بلکہ رام رام ست کا راستہ ہے، انھیں مسلم اور اسلامی ناموں، شناخت مثلا اکبر پور،علی بازار، اردو مارکیٹ وغیرہ سے سخت نفرت ہے، یہ ان کی بے شعوری کی علامت ہے، ملک کے قومی شاعر و ادیب رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی معروف کتاب، سنسکرتی کے چار ادھیائے کے ایک نمایاں باب کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو بھی رکھا ہے، ان سے یوگی آدتیہ ناتھ کھلے عام نفرت کا اظہار مختلف پروگراموں، ٹی وی مباحث حتی کہ یوپی اسمبلی تک میں کرتے ہیں، وہ اپنی طرف سے غلط مفروضات قائم کر کے ان کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کر کے ہندو سماج کو مشتعل کرنے کا کام کرتے ہیں، وہ یہ اشتعال انگیز غلط بیانی کرتے ہیں کہ بھارت ماتا کے خلاف غلط الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اسے برداشت و قبول نہیں کیا جا سکتا ہے، بھارت کی سالمیت، اکھنڈتا کو چنوتی دی جاتی ہے، بھارت میں رہتے ہوئے بھارت کو گالی دی جاتی ہے، اکبر پور گلے سے نہیں اترتا ہے،
لیکن بھارت کو گالی اور چنوتی کون دیتا ہے،؟ اس کو وہ واضح نہیں کرتے ہیں، رامپور کی طرح اکبر پور بھی بھارت کا حصہ ہے، یوگی کے تنقید و تبصرے میں کئی سارے مغالطے اور صحیح تاریخ سے بھٹکانے اور سماج کو فرقہ پرستی کے عزائم ہوتے ہیں، بیشتر باتیں، پس منظر سے الگ کر کے بیچ سے شروع کر ان کو غلط رخ دینے کی کوشش ہوتی ہے، یوگی جو کہتے اور کرتے ہیں وہ گرو گورکھ ناتھ کے فکر و عمل سے متصادم و متضاد ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک منصوبہ بند طریقے پر گورکھ ناتھ مٹھ کو ہتھیا کر برہمن واد کی روایت کی پاسداری و اجراء ہے، نانہوں سنگھ یعنی مہنت دگ وجے ناتھ سے ہوتے ہوئے اجے سنگھ بشٹ یعنی یوگی آدتیہ ناتھ تک ناتھ پنتھ کی فرقہ وارانہ اتحاد کی روایت کو بالکل الگ رنگ دے کر سماج میں تصادم کی راہ پر ڈالنے کی کوشش صاف طور پر نظر آتی ہے، مسلم دور حکومت میں اجودھیا اور گورکھ پور اور ان کے قرب و جوار کے سماجی، سیاسی، مذہبی اور سیاسی حالات پر کچھ وجوہ سے توجہ نہیں دی جا سکی، مغلیہ عہد اور نوابان اودھ، صوبہ متحدہ جات نے بھی گورکھ پور اور اس کے قرب و جوار کے خطے کے معاملات و مسائل پر مطلوبہ توجہ دے کر ان کے حل کرنے کی موثر سعی نہیں کی، اورنگزیب سمیت مختلف ادوار میں کچھ اقدامات کیے گئے لیکن ان کا تسلسل قائم نہیں رہ سکا جس کا شورش پسند طاقتوں نے مسلم دور حکومت اور حکومت برطانیہ اور آزادی سے پہلے و بعد کے دنوں میں بھر پور طریقے سے اٹھایا، انھوں نے گزرتے دنوں کے ساتھ دھرم، سیاست اور فرقہ وارانہ مسائل میں گھال میل کر کے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ گورکھ پور سمیت پورے خطے کی ایسی تصویر بنادی، جس کے کئی چہرے سامنے آتے رہے ہیں، کچھ چہرے پہچان میں آتے تھے، کچھ بے چہرہ، بے شناخت تھے، اس کیفیت و صورت حال میں کچھ عناصر اپنے مخصوص عزائم و مقاصد رکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے، گورکھ پور کے ماضی اور حال کو ملا کر مطالعہ کیا جائے تو اس کے کئی دلچسپ مذہبی، سماجی، تہذیبی، اقتصادی، سیاسی ایسے پہلو سامنے آتے ہیں، جن سے گورکھ پور، اس میں موجود گورکھ ناتھ مٹھ اور اس کے قرب و جوار کے مختلف مسائل کے افہام و تفہیم میں بڑی مدد ملتی ہے، اس پر دستیاب لٹریچر بھی خاصی روشنی ڈالتا ہے، گیتا پریس، گورکھ ناتھ مٹھ کے علاوہ ،سیاسی، مذہبی، ادبی تہذیبی جہالت سے بھی گورکھ پور کا ایک خاصا نام اور کردار ہے، جو تحریک آزادی، قومی اتحاد اور مشترکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لحاظ سے ایک شناخت ہے، گورکھ ناتھ مٹھ کے بدلتے کردار کے پس پشت کار فرما محرکات و اسباب کے مطالعے سے بھی کئی طرح کے حقائق سامنے آتے ہیں، مسلم دور حکومت میں اس سے اور مسلمانوں سے ناتھ پنتھی فرقے کے تعلقات کل ملا کر اچھے رہے ہیں مٹھ کی جگہ کئی بار تبدیل ہوئی لیکن فرقہ وارانہ تعلقات میں کبھی کوئی بڑی کشیدگی اور تصادم کے حالات پیدا نہیں ہوئے,البتہ برٹش سامراج کے دوران میں اور تقسیم وطن کے نتیجے میں ہندو مہا سبھا، مسلم لیگ وغیرہ کے فرقہ پرست عناصر کی تقسیم و تفریق اور باہمی نفرت نے فرقہ وارانہ تصویر اور منظر نامہ کو ایک مخصوص طرح تبدیلی کی راہ پر ڈال دیا، اس کے اسباب، کانگریس سے وابستہ لیڈروں کی ہندوتو وادی سوچ اور 1912،1915،1920 ،1921،1923،1926،1930 ،1939،1942 وغیرہ میں آریا سماج، ہندو مہا سبھا، مسلم لیگ وغیرہ کی سرگرمیوں اور گورکھ ناتھ مٹھ کے 1880 میں مہنت بدھ ناتھ کے ذریعے موجودہ جگہ پر دھونی استھان( مقام مراقبہ ) کے قیام کے بعد سے بدلتے حالات میں تلاش کیے جا سکتے ہیں، آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار کی طرح، راجستھان کے نانہوں سنگھ سے دکشا کے بعد دگ وجے ناتھ بن کر گورکھ ناتھ مٹھ کے رخ کو فرقہ وارانہ سمت موڑنے والے بھی کانگریس میں تھے لیکن گاندھی جی کی ہندو مسلم اتحاد کی پالیسی اور مسلمانوں سے ہمدردانہ رویے کو غلط سمجھتے ہوئے 1930 کی دہائی میں ہندو مہا سبھا کا ممبر، رکن بن گئے اور مٹھ کی روایت کو ہائی جیک کر لیا ،یوگی آدتیہ ناتھ اسی کا حصہ ہیں، اس صورت حال سے گورکھ ناتھ مٹھ کی روایت یکسر بدل کر رہ گئی، اس تعلق سے کہا جا سکتا کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے فرقہ پرستی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے، ان کی ہندو مسلم مسائل کے متعلق فرقہ وارانہ سوچ کا اظہار مختلف بیانات کے علاوہ وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر یادو کے خطاب و بیان کی حمایت و تائید سے بھی ہوتا ہے، یوگی، یادو، دونوں کے مغالطہ و اشتعال انگیز بیانات کی غلطیوں کو ہندستانی تواریخ و روایات اور مذہبی حوالوں سے بآسانی اجاگر کیا جا سکتا ہے، تاہم سردست یہ سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ گرو گورکھ ناتھ کی فرقہ وارانہ اتحاد والی روایت کو کس طرح فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعے، پٹری سے اتارنے کا کام کیا گیا ہے؟ اسی فرقہ وارانہ سیاست کا حصہ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ دعوٰی بھی ہے کہ سنبھل جامع مسجد، ہری ہر مندر توڑ کر تعمیر کی گئی ہے ،