حیدر آباد :(ایجنسی)
آندھرا پردیش کے گنٹور میں واقع جناح ٹاور گزشتہ کچھ عرصے سے خبروں میں ہے۔ منگل یکم فروری کو وائی ایس آر کانگریس کے ایک ایم ایل اے نے ٹاور کو ترنگے کے رنگوں میں رنگوا دیاہے۔ بتادیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بھی اس ٹاور کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ 26 جنوری کو جناح ٹاور پر ترنگا لہرانے کی کوشش کرنے والے ہندو واہنی تنظیم سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ٹاور پر ایسی سرگرمیاں ممنوع ہیں۔
منگل کو گنٹور ایسٹ کے ایم ایل اے محمد مصطفیٰ نے کہا کہ مختلف گروپوں کے کہنے پر ٹاور کو ترنگے سے سجانے اور ٹاور کے قریب قومی پرچم لہرانے کے لیے ایک پول بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعرات کو جناح ٹاور پر ترنگا لہرانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی اکائی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس ٹاور کا نام سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے نام پر رکھا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔
سابق ایم ایل اے محمد مصطفی نے اس معاملے کو ہوا دینے کے لیے بی جے پی ممبران پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی پھیلانے کے بجائے بی جے پی لیڈروں کو کورونا وبا کے درمیان ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مصطفیٰ نے منگل کو جی ایم سی میئر کاوتی منوہر نائیڈو کے ساتھ یادگار کا دورہ کیا تاکہ حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا جا سکے۔
بی جے پی نے کیا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ
آندھراپردیش میں بی جے پی کے کارکنوں نے گنٹور شہر میں واقع 79 سالہ قدیم جناح ٹاور کے نام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ زعفرانی جماعتوں کے کارکنوں نے 26 جنوری کو جناح ٹاور پر قومی پرچم لہرانے کی بھی کوشش کی۔
زعفرانی جماعتوں کے کارکنوں کی شرانگیزی کو دیکھتے ہوئے مقامی مسلمانوں کی رائے حاصل کرتے ہوئے گنٹور کے رکن اسمبلی محمد مصطفی نے جناح ٹاور کو قومی ترنگا کے رنگوں سے رنگ دیا اور یہاں 3 فروری کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے جناح ٹاور کے احاطے میں قومی پرچم لہرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
محمد مصطفیٰ نے کہا کہ کئی مسلم شخصیات نے آزادی کی جدوجہد کے دوران انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد کچھ مسلمان ملک چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہو گئے لیکن، ہم ہندوستانیوں کے طور پر اپنے ملک میں رہنا چاہتے تھے اور ہم مادر وطن سے محبت کرتے ہیں۔
بتا دیں کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر اس واقعہ کے بعد پولیس نے اس طرح کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔