پچاس سے زائد عرب اور اسلامی ملکوں کے سربراہان غزہ اور لبنان کے حالات پر آج پیر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بات چیت کر رہے ہیں۔
ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے عرب اسلامک سمٹ کا انعقاد کیا تھا
یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا ہے، ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے ایسے ہی ایک اجلاس میں ان ممالک کو مدعو کیا تھا، جس میں غزہ کی جنگ کو ختم کرانے کے حوالے سے کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، لیکن اس عمل کا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
سعودی ذرائع کے مطابق، ”اس سمٹ میں مقبوضہ فلسطینی علاقے اور لبنان میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر غور کیا جا رہا ہے۔‘‘
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اس عرب اسلامک سمٹ کی اہم ترجیحات میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانا، شہریوں کا تحفظ، فلسطینی اور لبنانی عوام کو مدد فراہم کرنا، پوزیشنوں کو متحد کرنا اور بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالنا شامل ہیں، تاکہ وہ بھی خطے میں جاری جارحیت کے خاتمے اور وہاں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے۔
ذرائع کے مطابق سعودی عرب، اردن، مصر، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا اور فلسطین کے وزرائے خارجہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مل کر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانے اور دیرپا اور جامع امن کے حصول کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
••یہ سربراہی اجلاس کتنا اہم ہے؟
معروف تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی خلیجی امور کی تجزیہ کار اینا جیکب کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے برعکس آج کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کے ذہنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو جانے کی بات ضرور رہے گی۔
انہوں نے کہا، ”یہ سربراہی اجلاس علاقائی رہنماؤں کے لیے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو اشارہ دینے کا بہت اہم موقع ہے کہ وہ امریکی ترجیحات کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘’’یہ پیغام ممکنہ طور پر بات چیت، کشیدگی میں کمی اور خطے میں اسرائیلی فوجی مہمات کو ختم کرنے سے متعلق ہو گا۔‘‘
برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاسی امور کے ماہر عمر کریم نے کہا کہ ریاض پیر کے اجلاس کو ٹرمپ کی آنے والی ٹیم کو یہ اشارہ دینے کے لیے استعمال کرے گا کہ وہ ایک مضبوط شراکت دار ہے۔انہوں نے کہا کہ پیغام یہ ہے کہ ٹرمپ ”مسلم دنیا کے نمائندے ہونے کے حوالے سے سعودیوں پر بھروسا کر سکتے ہیں،‘‘ اور یہ کہ ”اگر آپ خطے میں امریکی مفادات کو بڑھانا چاہتے ہیں، تو سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘
عمر کریم نے کہا کہ پیر 11 نومبر کو ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے بعد کے بیان میں ممکنہ طور پر ”اسرائیل کی شدید مذمت کی جائے گی … جبکہ اس معاملے میں امریکہ کے زیادہ سے زیادہ کردار اور سفارت کاری پر زور دیا جائے گا۔‘‘