اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کے حوالے سے نئی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق سیکرٹری جنرل حزب اللہ کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کو کئی روز پہلے سے درست اطلاعات مل چکی تھیں کہ حسن نصراللہ کہاں اور کب ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں۔
الشرق الاوسط میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ کو قتل کرنے کے لیے 14 مقامات پر بمباری کی گئی اس بمباری میں ان سب عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں حسن نصراللہ کے داخل ہونے کی اطلاع تھی۔ بمباری کرتے ہوئے وہ تمام ممکنہ راستے بھی ہدف بنائے گئے جو ان عمارات سے بچ نکلنے کی صورت کام آ سکتے تھے۔
گویا بمباری کے ذریعے مکمل ناکہ بندی بھی کر دی گئی تھی۔ اسی طرح بمباری کے بعد ریسکیو آپریشن کا امکان ختم کرنے کےلیے اس بمباری کو مسلسل جاری رکھا گیا اور کئی دن تک کی گئی۔
واضح رہے اسرائیلی فوج کی غزہ میں لمبی ناکہ بندی کا مقصد بھی ایک تو فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہلاک کرنے کے لیے بمباری سے نتائج حاصل کرنا ہوتے ہیں اور دوسرا ریسکیو کے لیے آنے والی ٹیموں کا راستہ روکنا بھی ہوتا ہے تاکہ فلسطینی شہری تڑپ تڑپ کر مرتے رہیں اور مرنے میں کوئی شبہ نہ رہ جائے۔ یہی سٹریٹجی یہاں اختیار کرتے ہوئے جنوبی بیروت پر بمباری کی گئی۔الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سیکیورٹی ادارے یہ تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل نے 2006 میں ہی حسن نصراللہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے مسلسل کوشاں رہے، تاہم یہ فیصلہ اسرائیل کی سیاسی قیادت نے کرنا تھا کہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کا بہترین اور مناسب ترین وقت کون سا ہوگا۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی قیادت نے حتمی طور پر فیصلہ کر لیا کہ اب حزب اللہ کے سربراہ کا قتل بھی ممکن بنا لینا ہے۔اس مقصد کے لیے اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے حسن نصراللہ اور حزب اللہ کو یہ دھوکہ دینے کی سٹریٹجی اپنائی کہ اسرائیل کسی صورت سرحدی کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہے گا۔ حسن نصراللہ اسرائیل کے اس دھوکے میں آگئے اور انہوں نے اپنی سیکیورٹی کو زیادہ سخت نہیں کیا۔پچھلے سال 16 ستمبر کو اسرائیل نے اپنی حکمت عملی اس وقت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا کہ اب حسن نصراللہ کو قتل کر دیا جائے گا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب امریکی نمائندہ خصوصی مایوس ہو گئے اور حزب اللہ نے نیتن یاہو کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ حماس کی حمایت سے باز آجائے۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ نے 17 ستمبر کو لبنان پر بڑے حملے کی منظوری دی۔ یہ بڑا حملہ پیجروں کو دھماکوں سے اڑانے کا فیصلہ تھا۔ حسن نصراللہ نے 19 ستمبر کو ایک تقریر میں اعلان کیا کہ جب تک غزہ میں اسرائیل جنگ نہیں روکتا اسے سرحد پر نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ اسرائیل نے اس کو لبنان کے خلاف کشیدگی بڑھانے کے ایک جواز کے طورپر پیش کیا۔ تب سے حسن نصراللہ کی نقل و حرکت کی پہلے کے مقابلے میں زیادہ انٹیلی جنس مانیٹرنگ کی جانے لگی۔
اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس نے جنوبی بیروت کے رہائشی علاقے کے نیچے ایک کمپلیکس کے اندر اس کے صحیح مقام
کا پتہ لگایا
الشرق الاوسط کے مطابق حتمی منصوبہ کی نگرانی اسرائیلی چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے کی وزیراعظم نیتن یاہو نے ذاتی طور پر حتمی بریفنگ میں شرکت کی۔ 14 لڑاکا طیاروں کا بیڑا 80 ٹن گولہ بارود سے لیس تھا۔ آپریشن شام 6 بجکر 21 منٹ پر شام کی نماز کے دوران کیا گیا۔اس بمباری کے نتیجے میں صرف 10 سیکنڈ میں، عمارتیں گر گئیں، جس سے سائٹ پر ایک بڑا گڑھا پڑ گیا۔ فرار کے کسی بھی موقع کو ختم کرنے کے لیے تمام موجود راستوں پر بھی بد ترین بمباری کی گئی۔ لبنان کی ہنگامی صورتحال اور زخمیوں کو بچانے کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے کئی دنوں تک بمباری جاری رکھی گئی۔کی نشاندہی کی تھی۔ اس کے لیے 20 ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عمارتوں کو فوکس کیا گیا
الشرق الاوسط کے مطابق حتمی منصوبہ کی نگرانی اسرائیلی چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے کی وزیراعظم نیتن یاہو نے ذاتی طور پر حتمی بریفنگ میں شرکت کی۔ 14 لڑاکا طیاروں کا بیڑا 80 ٹن گولہ بارود سے لیس تھا۔ آپریشن شام 6 بجکر 21 منٹ پر شام کی نماز کے دوران کیا گیا۔اس بمباری کے نتیجے میں صرف 10 سیکنڈ میں، عمارتیں گر گئیں، جس سے سائٹ پر ایک بڑا گڑھا پڑ گیا۔ فرار کے کسی بھی موقع کو ختم کرنے کے لیے تمام موجود راستوں پر بھی بد ترین بمباری کی گئی۔ لبنان کی ہنگامی صورتحال اور زخمیوں کو بچانے کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے کئی دنوں تک بمباری جاری رکھی گئی۔ فوجی نمائندے امیر بوہبوت کا کہنا ہے کہ حسن نصراللہ بڑھتے ہوئے حملوں کو ایک انتباہ کے طور پر سمجھنے میں ناکام رہے۔ بوہبوٹ نے کہا ‘حسن نصراللہ، جو خود کو اسرائیلی حکمت عملیوں کو سمجھنے پر فخر کرتے تھے۔ اس لیے وہ حد سے زیادہ پراعتماد ہو گئے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ نصراللہ کو گمراہ کرنے کی اسرائیلی انٹیلی جنس کی حکمت عملی نے ان کے اس یقین کو تقویت بخشی کہ وہ نشانہ نہیں تھے۔حسن نصراللہ 27 ستمبر 2024 کو اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے 32 سال تک حزب اللہ کی قیادت کی۔ انہیں ختم کرنے کو اسرائیل اپنی بہت بڑی کامیابی خیال کرتا ہے۔