پس آئینہ: نازش احتشام اعظمی
تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے کی فکری تشکیل، اخلاقی تربیت اور اجتماعی شعور کو جِلا بخشنے والے مراکز ہوتے ہیں۔ مدارس ہوں یا جدید کالجز، ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ نوجوان ذہنوں کو آزادانہ سوچنے، دلیل سے بات کرنے اور علمی دنیا کی وسعتوں میں پرواز کرنے کا حوصلہ دیں۔ ان اداروں کی عمارتیں محض اینٹ اور گارے کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ تہذیب کی چھت کے نیچے قائم وہ درس گاہیں ہوتی ہیں جہاں سے آنے والی نسلوں کے کردار، شعور اور مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے جو افراد ذمہ دار ٹھہرتے ہیں—جیسے پرنسپل، ناظمِ تعلیم، ٹرسٹی، منتظمین، گورننگ باڈی کے ارکان اور سینئر اساتذہ—انہیں عموماً اربابِ حل و عقد کہا جاتا ہے۔ توقع یہ ہوتی ہے کہ یہ حضرات علم، عدل، شفافیت اور اخلاقیات کے محافظ ہوں گے، لیکن افسوس کہ جنوبی ایشیا کے متعدد مدارس و کالجز میں یہ مناصب خدمت کے بجائے طاقت کے نمائندے بن چکے ہیں، اور اسی طاقت کے غلط استعمال نے اداروں کی روح کو مجروح کر دیا ہے۔
اقتدار جب توازن سے نکل جائے تو اس کے اثرات اداروں کے ہر شعبے پر گہرے ہوتے ہیں۔ بہت سے مدارس میں فیصلہ سازی محض چند ہاتھوں تک محدود ہو چکی ہے۔ پرنسپل یا ناظمِ تعلیم اپنے گرد چند قریبی افراد کا حلقہ قائم کر لیتے ہیں اور پھر نصاب کی تبدیلی سے لے کر اساتذہ کی تقرری تک، امتحانات کے انتظام سے لے کر نظم و ضبط کے ضابطوں تک—ہر معاملہ اسی مختصر حلقے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کو علمی تقاضہ نہیں بلکہ گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ کسی طالب علم نے اگر کسی فرسودہ طریقے پر سوال اٹھا دیا، کسی نئے مضمون کی شمولیت کی بات کی، یا کسی غیرمنصفانہ کارروائی کو چیلنج کر دیا، تو اس کے لیے ’’باغی‘‘، ’’گستاخ‘‘ یا ’’جدیدیت زدہ‘‘ کا لیبل تیار رکھا جاتا ہے۔ علمی ماحول میں ایسے رویّے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ تعلیم کی بنیاد سوال، مکالمے اور تحقیق پر ہے، اور جب سوال کی سزا سزاوار ٹھہرے تو علم اپنا سفر کھو دیتا ہے۔
اسی طرح کالجز میں بھی معاملہ مختلف نہیں، البتہ شکل بدل جاتی ہے۔ وہاں طاقت روایتی مذہبی آمرانہ پن کے بجائے انتظامی اقتدار اور کارپوریٹ انداز میں جلوہ دکھاتی ہے۔ اساتذہ کی رائے اکثر ایسے فیصلوں میں بے وقعت ہو جاتی ہے جو براہِ راست تدریسی معیار سے جڑے ہوتے ہیں۔ طلبہ کی شکایات کو توجہ دینے کے بجائے انہیں ’’غیر ضروری شور‘‘ قرار دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پالیسی سازی کسی مشترکہ مشاورت کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ چند لوگوں کے ذہنی خاکے کو ادارے پر تھوپنے کا عمل بن جاتی ہے۔ نتیجہ ایک ایسا ماحول بنتا ہے جس میں خوف کے سائے گہرے ہوتے ہیں، جمود اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے، اور ادارے کی روح مرجھانے لگتی ہے۔
اس صورتحال میں ایک اور المیہ اقربا پروری اور ذاتی مفادات کا ہے۔ مدارس ہوں یا کالجز، بہت سے اداروں میں قابلیت اور امانت داری کے معیار پر نہیں بلکہ ذاتی تعلقات، سیاسی روابط اور اندھی وفاداری پر مناصب دیے جاتے ہیں۔ کسی استاد کی تقرری سفارش، کسی عہدے کی تقسیم دوستی، اور کسی ترقی کا فیصلہ خوشامد کے اصولوں پر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اہل و قابل اساتذہ خود کو غیر اہم محسوس کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں یا تو دب جاتی ہیں یا کسی دوسرے ادارے کی متاع بن جاتی ہیں۔ جب علم کا چراغ بجھانے والے لوگ خود اسی کے محافظ بن بیٹھیں، تو روشن خیالی اور تحقیق کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ طلبہ اس منظر کو دیکھ کر اداروں سے اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں اور تعلیمی معیار رفتہ رفتہ پاتال میں جا گرتا ہے۔
مالی شفافیت کا بحران بھی اس صورتِ حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ بہت سے اداروں میں مالیات پر گرفت چند افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ عطیات، سرکاری گرانٹس، طلبہ کی فیسوں اور ترقیاتی فنڈز کا استعمال کسی واضح اور آزادانہ آڈٹ کے بغیر ہوتا ہے۔ کسی جگہ تعمیر و ترقی کے نام پر اخراجات دکھائے جاتے ہیں مگر حقیقت میں وہ فنڈز کہیں اور منتقل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ادارے بظاہر کامیابی کے دعوے کرتے ہیں مگر مالی بے ضابطگیاں اس کامیابی کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ مالی بدعنوانی وہ ناسور ہے جو اداروں کے اخلاقی وجود کو اندر سے کھا جاتا ہے، اور ادارہ محض ایک خوبصورت مگر خالی خول کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
تاہم اختیار کے غلط استعمال کا سب سے دردناک اثر علمی آزادی پر پڑتا ہے۔ مدارس میں جدید نصاب، سائنسی علوم، سماجی علوم، کمپیوٹر اور تقابلی مذہب جیسے مضامین سے اس بنا پر گریز کیا جاتا ہے کہ وہ ’’روایت‘‘ سے دور کر دیں گے۔ مگر یوں لگتا ہے کہ روایت کی حفاظت کے نام پر علم کی وسعتوں سے خوف محسوس کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد ذہنوں کو محدود رکھنا نہیں بلکہ انہیں روشنی دینا ہے۔ اگر روایت کا چراغ جدیدیت کی ہوا سے ڈر کر بجھ جائے تو وہ چراغ روایت نہیں کمزوری بن جاتا ہے۔ اکثر مدارس میں نصاب کی تبدیلی کی بات کو بدعت یا بغاوت سمجھا جاتا ہے، جبکہ دنیا وہیں آگے
بڑھتی ہے جہاں نصاب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔
کالجز میں علمی آزادی کا گلا گھونٹنے والی قوتیں قدرے مختلف ہیں۔ وہاں سیاسی اثر و رسوخ، مقامی طاقتور طبقے، اور بعض اوقات طلبہ تنظیموں کی دبنگی یہ تعین کرتی ہے کہ کون سا موضوع پڑھایا جائے اور کس پر تحقیق کی اجازت ہو۔ اساتذہ کو احساس ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی حساس موضوع چھیڑ دیا تو ان کے خلاف شکایات، دباؤ یا کارروائیاں شروع ہو جائیں گی۔ جب علم سیاست کا تابع ہو جائے تو تحقیق کا دریا خشک ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ہستی اساتذہ کی ہے، جو کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ اکثر اداروں میں انہیں عزت، سہولت اور تحفظ دینے کے بجائے ان پر غیرضروری دباؤ، انتظامی بوجھ، کم تنخواہیں اور بے جا مداخلت مسلط کی جاتی ہے۔ ان سے بھرپور کام لیا جاتا ہے مگر ان کی پیشہ ورانہ ترقی کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ کئی جگہ اساتذہ کو نوٹس دے کر، انہیں ہراساں کر کے یا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حقوق روک کر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں استاد، جو اصل میں روشنی بانٹنے والا چراغ ہے، خود اندر سے بجھنے لگتا ہے۔ جب استاد مایوس ہو جائے تو علم کا سفر رک جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ اداروں میں ابتدا میں اساتذہ کو آزادی اور احترام دیا جاتا ہے جس سے ماحول مثبت بنتا ہے، مگر جب انتظامیہ اسی آزادی کو توازن کے ساتھ برقرار نہیں رکھ پاتی تو کچھ اساتذہ اسے کمزوری سمجھ کر اس کا غلط استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ادارہ نظم و ضبط کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اختیارات کا توازن دونوں جانب ضروری ہے—نہ انتظامیہ آمرانہ ہو، نہ اساتذہ بے لگام۔
عوامی اور شورائی نوعیت کے ادارے اس تناظر میں کچھ مختلف نظر آتے ہیں۔ وسائل کم ہونے کے باوجود اخلاص زیادہ ہوتا ہے، مالی بدعنوانی کم ہوتی ہے، اور اساتذہ کے ساتھ انسانی رویہ برقرار رہتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ادارے بھی بعض سربراہوں کے ہاتھوں آمرانہ طرز اختیار کر لیتے ہیں۔ سربراہ خود کو پورے ادارے کا مختارِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ شورائی مشاورت کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اختلاف رائے کو دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور ادارے کو اپنی شہرت، اقتدار یا خاندان کے اثرو رسوخ کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ یہ رویہ آہستہ آہستہ پورے ادارے کو بیمار کر دیتا ہے۔
اگر اس بحران کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلی چیز جوابدہی کا فقدان نظر آتی ہے۔ جہاں نہ اندرونی نگرانی ہو نہ بیرونی، وہاں اختیار کا غلط استعمال ناگزیر ہے۔ اسی کے ساتھ خاندانی اجارہ داری بھی ایک اہم سبب ہے، جس کے ذریعے عزیز و اقارب کو اداروں کی گورننگ باڈی میں شامل کر کے طاقت کو موروثی بنا دیا جاتا ہے۔ قوانین موجود ہوتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ثقافتی طور پر بڑوں سے سوال کرنا بداخلاقی سمجھا جاتا ہے، جس سے اداروں میں خوف اور اطاعت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی اثرات بھی بہت سے اداروں کی پالیسیوں اور انتخابِ قیادت میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے علم کا سفر مزید دشوار ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طاقت چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے، اور جہاں طاقت مرتکز ہو وہاں بدعنوانی اور ناانصافی کو جنم لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ان پہلوؤں کو درست کیے بغیر تعلیمی ادارے اپنے اصل مشن کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔ اصلاح کا راستہ یہی ہے کہ اداروں میں شفافیت کو لازم قرار دیا جائے، مالیاتی رپورٹس کو کھلی فضا میں پیش کیا جائے، آڈٹ باقاعدگی سے ہو، اور ہر اہم فیصلے میں مشاورت کو بنیادی شرط بنایا جائے۔ بھرتیاں صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوں، شکایات کے ازالے کے لیے غیرجانبدار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، اور اساتذہ کو پالیسی سازی میں حقیقی طور پر شریک کیا جائے۔ جب استاد کو عزت، آزادی اور تحفظ ملے گا تو وہ طلبہ کی رہنمائی میں اپنا پورا دل لگا دے گا۔ اور جب اداروں میں قوتِ فیصلہ چند ہاتھوں سے نکل کر اجتماعی شعور کے حوالے ہو گی تو ادارے دوبارہ وہی چراغِ علم بن سکیں گے جن کی روشنی میں قومیں آگے بڑھتی ہیں۔
مدارس و کالجز میں اختیار کا بےجا استعمال محض انتظامی خرابی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور تعلیمی بحران ہے۔ جو ادارے علم کی روشنی پھیلانے کے لیے قائم کیے گئے تھے، وہی اگر خوف، سفارش، ناانصافی اور بدعنوانی کے اڈے بن جائیں تو قوم کی فکری زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ اصل قیادت وہ ہے جس کی بنیاد کردار، عدل، شفافیت اور عاجزی پر ہو—اختیار پر نہیں۔ اگر تعلیمی ادارے اپنے مقاصد کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو انہیں جوابدہی، شورائیت، شفافیت اور میرٹ کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے مدارس و کالجز دوبارہ تحقیق، مکالمہ اور تربیت کے روشن مراکز بن سکتے ہیں، اور یہی راستہ مستقبل کے معماروں کو روشنی دے سکتا ہے۔
(یہ کالم نگار کے ذاتی خیالات ہیں)











