اردو
हिन्दी
دسمبر 15, 2025
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein
  • ہوم
  • دیس پردیس
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • اداریے
  • ہیٹ کرا ئم
  • سپورٹ کیجیے
کوئی نتیجہ نہیں ملا
تمام نتائج دیکھیں
  • ہوم
  • دیس پردیس
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • اداریے
  • ہیٹ کرا ئم
  • سپورٹ کیجیے
کوئی نتیجہ نہیں ملا
تمام نتائج دیکھیں
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein
کوئی نتیجہ نہیں ملا
تمام نتائج دیکھیں

مدارس و کالجز میں اربابِ حل و عقد کا آمرانہ نظام

5 دن پہلے
‏‏‎ ‎‏‏‎ ‎|‏‏‎ ‎‏‏‎ ‎ مضامین
A A
0
Authoritarian System in Madrasas and Colleges
0
مشاہدات
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پس آئینہ: نازش احتشام اعظمی
تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے کی فکری تشکیل، اخلاقی تربیت اور اجتماعی شعور کو جِلا بخشنے والے مراکز ہوتے ہیں۔ مدارس ہوں یا جدید کالجز، ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ نوجوان ذہنوں کو آزادانہ سوچنے، دلیل سے بات کرنے اور علمی دنیا کی وسعتوں میں پرواز کرنے کا حوصلہ دیں۔ ان اداروں کی عمارتیں محض اینٹ اور گارے کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ تہذیب کی چھت کے نیچے قائم وہ درس گاہیں ہوتی ہیں جہاں سے آنے والی نسلوں کے کردار، شعور اور مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے جو افراد ذمہ دار ٹھہرتے ہیں—جیسے پرنسپل، ناظمِ تعلیم، ٹرسٹی، منتظمین، گورننگ باڈی کے ارکان اور سینئر اساتذہ—انہیں عموماً اربابِ حل و عقد کہا جاتا ہے۔ توقع یہ ہوتی ہے کہ یہ حضرات علم، عدل، شفافیت اور اخلاقیات کے محافظ ہوں گے، لیکن افسوس کہ جنوبی ایشیا کے متعدد مدارس و کالجز میں یہ مناصب خدمت کے بجائے طاقت کے نمائندے بن چکے ہیں، اور اسی طاقت کے غلط استعمال نے اداروں کی روح کو مجروح کر دیا ہے۔
اقتدار جب توازن سے نکل جائے تو اس کے اثرات اداروں کے ہر شعبے پر گہرے ہوتے ہیں۔ بہت سے مدارس میں فیصلہ سازی محض چند ہاتھوں تک محدود ہو چکی ہے۔ پرنسپل یا ناظمِ تعلیم اپنے گرد چند قریبی افراد کا حلقہ قائم کر لیتے ہیں اور پھر نصاب کی تبدیلی سے لے کر اساتذہ کی تقرری تک، امتحانات کے انتظام سے لے کر نظم و ضبط کے ضابطوں تک—ہر معاملہ اسی مختصر حلقے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کو علمی تقاضہ نہیں بلکہ گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ کسی طالب علم نے اگر کسی فرسودہ طریقے پر سوال اٹھا دیا، کسی نئے مضمون کی شمولیت کی بات کی، یا کسی غیرمنصفانہ کارروائی کو چیلنج کر دیا، تو اس کے لیے ’’باغی‘‘، ’’گستاخ‘‘ یا ’’جدیدیت زدہ‘‘ کا لیبل تیار رکھا جاتا ہے۔ علمی ماحول میں ایسے رویّے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ تعلیم کی بنیاد سوال، مکالمے اور تحقیق پر ہے، اور جب سوال کی سزا سزاوار ٹھہرے تو علم اپنا سفر کھو دیتا ہے۔
اسی طرح کالجز میں بھی معاملہ مختلف نہیں، البتہ شکل بدل جاتی ہے۔ وہاں طاقت روایتی مذہبی آمرانہ پن کے بجائے انتظامی اقتدار اور کارپوریٹ انداز میں جلوہ دکھاتی ہے۔ اساتذہ کی رائے اکثر ایسے فیصلوں میں بے وقعت ہو جاتی ہے جو براہِ راست تدریسی معیار سے جڑے ہوتے ہیں۔ طلبہ کی شکایات کو توجہ دینے کے بجائے انہیں ’’غیر ضروری شور‘‘ قرار دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پالیسی سازی کسی مشترکہ مشاورت کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ چند لوگوں کے ذہنی خاکے کو ادارے پر تھوپنے کا عمل بن جاتی ہے۔ نتیجہ ایک ایسا ماحول بنتا ہے جس میں خوف کے سائے گہرے ہوتے ہیں، جمود اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے، اور ادارے کی روح مرجھانے لگتی ہے۔
اس صورتحال میں ایک اور المیہ اقربا پروری اور ذاتی مفادات کا ہے۔ مدارس ہوں یا کالجز، بہت سے اداروں میں قابلیت اور امانت داری کے معیار پر نہیں بلکہ ذاتی تعلقات، سیاسی روابط اور اندھی وفاداری پر مناصب دیے جاتے ہیں۔ کسی استاد کی تقرری سفارش، کسی عہدے کی تقسیم دوستی، اور کسی ترقی کا فیصلہ خوشامد کے اصولوں پر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اہل و قابل اساتذہ خود کو غیر اہم محسوس کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں یا تو دب جاتی ہیں یا کسی دوسرے ادارے کی متاع بن جاتی ہیں۔ جب علم کا چراغ بجھانے والے لوگ خود اسی کے محافظ بن بیٹھیں، تو روشن خیالی اور تحقیق کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ طلبہ اس منظر کو دیکھ کر اداروں سے اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں اور تعلیمی معیار رفتہ رفتہ پاتال میں جا گرتا ہے۔
مالی شفافیت کا بحران بھی اس صورتِ حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ بہت سے اداروں میں مالیات پر گرفت چند افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ عطیات، سرکاری گرانٹس، طلبہ کی فیسوں اور ترقیاتی فنڈز کا استعمال کسی واضح اور آزادانہ آڈٹ کے بغیر ہوتا ہے۔ کسی جگہ تعمیر و ترقی کے نام پر اخراجات دکھائے جاتے ہیں مگر حقیقت میں وہ فنڈز کہیں اور منتقل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ادارے بظاہر کامیابی کے دعوے کرتے ہیں مگر مالی بے ضابطگیاں اس کامیابی کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ مالی بدعنوانی وہ ناسور ہے جو اداروں کے اخلاقی وجود کو اندر سے کھا جاتا ہے، اور ادارہ محض ایک خوبصورت مگر خالی خول کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
تاہم اختیار کے غلط استعمال کا سب سے دردناک اثر علمی آزادی پر پڑتا ہے۔ مدارس میں جدید نصاب، سائنسی علوم، سماجی علوم، کمپیوٹر اور تقابلی مذہب جیسے مضامین سے اس بنا پر گریز کیا جاتا ہے کہ وہ ’’روایت‘‘ سے دور کر دیں گے۔ مگر یوں لگتا ہے کہ روایت کی حفاظت کے نام پر علم کی وسعتوں سے خوف محسوس کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد ذہنوں کو محدود رکھنا نہیں بلکہ انہیں روشنی دینا ہے۔ اگر روایت کا چراغ جدیدیت کی ہوا سے ڈر کر بجھ جائے تو وہ چراغ روایت نہیں کمزوری بن جاتا ہے۔ اکثر مدارس میں نصاب کی تبدیلی کی بات کو بدعت یا بغاوت سمجھا جاتا ہے، جبکہ دنیا وہیں آگے

بڑھتی ہے جہاں نصاب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔
کالجز میں علمی آزادی کا گلا گھونٹنے والی قوتیں قدرے مختلف ہیں۔ وہاں سیاسی اثر و رسوخ، مقامی طاقتور طبقے، اور بعض اوقات طلبہ تنظیموں کی دبنگی یہ تعین کرتی ہے کہ کون سا موضوع پڑھایا جائے اور کس پر تحقیق کی اجازت ہو۔ اساتذہ کو احساس ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی حساس موضوع چھیڑ دیا تو ان کے خلاف شکایات، دباؤ یا کارروائیاں شروع ہو جائیں گی۔ جب علم سیاست کا تابع ہو جائے تو تحقیق کا دریا خشک ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ہستی اساتذہ کی ہے، جو کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ اکثر اداروں میں انہیں عزت، سہولت اور تحفظ دینے کے بجائے ان پر غیرضروری دباؤ، انتظامی بوجھ، کم تنخواہیں اور بے جا مداخلت مسلط کی جاتی ہے۔ ان سے بھرپور کام لیا جاتا ہے مگر ان کی پیشہ ورانہ ترقی کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ کئی جگہ اساتذہ کو نوٹس دے کر، انہیں ہراساں کر کے یا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حقوق روک کر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں استاد، جو اصل میں روشنی بانٹنے والا چراغ ہے، خود اندر سے بجھنے لگتا ہے۔ جب استاد مایوس ہو جائے تو علم کا سفر رک جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ اداروں میں ابتدا میں اساتذہ کو آزادی اور احترام دیا جاتا ہے جس سے ماحول مثبت بنتا ہے، مگر جب انتظامیہ اسی آزادی کو توازن کے ساتھ برقرار نہیں رکھ پاتی تو کچھ اساتذہ اسے کمزوری سمجھ کر اس کا غلط استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ادارہ نظم و ضبط کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اختیارات کا توازن دونوں جانب ضروری ہے—نہ انتظامیہ آمرانہ ہو، نہ اساتذہ بے لگام۔
عوامی اور شورائی نوعیت کے ادارے اس تناظر میں کچھ مختلف نظر آتے ہیں۔ وسائل کم ہونے کے باوجود اخلاص زیادہ ہوتا ہے، مالی بدعنوانی کم ہوتی ہے، اور اساتذہ کے ساتھ انسانی رویہ برقرار رہتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ادارے بھی بعض سربراہوں کے ہاتھوں آمرانہ طرز اختیار کر لیتے ہیں۔ سربراہ خود کو پورے ادارے کا مختارِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ شورائی مشاورت کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اختلاف رائے کو دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور ادارے کو اپنی شہرت، اقتدار یا خاندان کے اثرو رسوخ کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ یہ رویہ آہستہ آہستہ پورے ادارے کو بیمار کر دیتا ہے۔
اگر اس بحران کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلی چیز جوابدہی کا فقدان نظر آتی ہے۔ جہاں نہ اندرونی نگرانی ہو نہ بیرونی، وہاں اختیار کا غلط استعمال ناگزیر ہے۔ اسی کے ساتھ خاندانی اجارہ داری بھی ایک اہم سبب ہے، جس کے ذریعے عزیز و اقارب کو اداروں کی گورننگ باڈی میں شامل کر کے طاقت کو موروثی بنا دیا جاتا ہے۔ قوانین موجود ہوتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ثقافتی طور پر بڑوں سے سوال کرنا بداخلاقی سمجھا جاتا ہے، جس سے اداروں میں خوف اور اطاعت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی اثرات بھی بہت سے اداروں کی پالیسیوں اور انتخابِ قیادت میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے علم کا سفر مزید دشوار ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طاقت چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے، اور جہاں طاقت مرتکز ہو وہاں بدعنوانی اور ناانصافی کو جنم لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ان پہلوؤں کو درست کیے بغیر تعلیمی ادارے اپنے اصل مشن کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔ اصلاح کا راستہ یہی ہے کہ اداروں میں شفافیت کو لازم قرار دیا جائے، مالیاتی رپورٹس کو کھلی فضا میں پیش کیا جائے، آڈٹ باقاعدگی سے ہو، اور ہر اہم فیصلے میں مشاورت کو بنیادی شرط بنایا جائے۔ بھرتیاں صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوں، شکایات کے ازالے کے لیے غیرجانبدار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، اور اساتذہ کو پالیسی سازی میں حقیقی طور پر شریک کیا جائے۔ جب استاد کو عزت، آزادی اور تحفظ ملے گا تو وہ طلبہ کی رہنمائی میں اپنا پورا دل لگا دے گا۔ اور جب اداروں میں قوتِ فیصلہ چند ہاتھوں سے نکل کر اجتماعی شعور کے حوالے ہو گی تو ادارے دوبارہ وہی چراغِ علم بن سکیں گے جن کی روشنی میں قومیں آگے بڑھتی ہیں۔
مدارس و کالجز میں اختیار کا بےجا استعمال محض انتظامی خرابی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور تعلیمی بحران ہے۔ جو ادارے علم کی روشنی پھیلانے کے لیے قائم کیے گئے تھے، وہی اگر خوف، سفارش، ناانصافی اور بدعنوانی کے اڈے بن جائیں تو قوم کی فکری زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ اصل قیادت وہ ہے جس کی بنیاد کردار، عدل، شفافیت اور عاجزی پر ہو—اختیار پر نہیں۔ اگر تعلیمی ادارے اپنے مقاصد کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو انہیں جوابدہی، شورائیت، شفافیت اور میرٹ کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے مدارس و کالجز دوبارہ تحقیق، مکالمہ اور تربیت کے روشن مراکز بن سکتے ہیں، اور یہی راستہ مستقبل کے معماروں کو روشنی دے سکتا ہے۔
(یہ کالم نگار کے ذاتی خیالات ہیں)

قارئین سے ایک گزارش

سچ کے ساتھ آزاد میڈیا وقت کی اہم ضرورت ہےـ روزنامہ خبریں سخت ترین چیلنجوں کے سایے میں گزشتہ دس سال سے یہ خدمت انجام دے رہا ہے۔ اردو، ہندی ویب سائٹ کے ساتھ یو ٹیوب چینل بھی۔ جلد انگریزی پورٹل شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ کاز عوامی تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسے جاری رکھنے کے لیے ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔

سپورٹ کریں سبسکرائب کریں

مزید خبریں

Misconceptions about Jihad
مضامین

جہاد کے متعلق جہالت و بے خبری،

09 دسمبر
Modi Decode Intellectual Failure
مضامین

دانشور طبقہ نریندر مودی کو ڈی کوڈ کرنے میں ناکام رہا

06 دسمبر
Raja Ram Mohan Roy Controversy
مضامین

راجا رام موہن رائے، نشانے پر کیوں؟

24 نومبر
  • ٹرینڈنگ
  • تبصرے
  • تازہ ترین
NCERT Ghaznavi Content

NCRT کی نئی کلاس 7 کی کتاب میں ‘غزنوی حملہ’، مندروں کی تباہی اور اسلام کی اشاعت پر فوکس

دسمبر 7, 2025
Umeed Portal Shutdown Waqf Registration

ڈیڈ لائن کے ساتھ ہی امید پورٹل بند ، کوئی نئی پراپرٹی اپ لوڈ نہیں کی جائے گی۔ 6 ماہ میں کل 5,17,040 وقف املاک درج

دسمبر 7, 2025
Khaleda Zia Critical Hospitalized

بنگلہ دیش کی سابق پی ایم خالدہ ضئیا وینٹی لیٹر پر، حالت نازک، کئی اعضا نے کام کرنا بند کردیا

دسمبر 12, 2025
Akhilesh Questions Detention Centre Motive

ڈیٹنشن سینٹر کس لیے، یہ S.I.R. ہے یا N.R.C ؟ اکھلیش کا سوال

دسمبر 10, 2025
US Visa Social Media Screening

امریکہ، ویزا چاہنے والوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھنگالے گا، ضوابط کا دائرہ بڑھایا

Naya Bihar Athar Murder Case

‘نیا بہار’: پلاس سے اطہر کی انگلیاں ،کان کاٹے، گرم سلاخ سے داغا،سینے پر کودے،جان لے لی

Dr Qazi Mohammad Mian Edu Honours Award

تعلیمی میدان میں سرگرم ڈاکٹر قاضی محمد میاں ایڈو آنرز ایوارڈ سے سرفراز

Universities Education Crisis

یونیورسٹیاں تباہی کے دہانے پر

US Visa Social Media Screening

امریکہ، ویزا چاہنے والوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھنگالے گا، ضوابط کا دائرہ بڑھایا

دسمبر 15, 2025
Naya Bihar Athar Murder Case

‘نیا بہار’: پلاس سے اطہر کی انگلیاں ،کان کاٹے، گرم سلاخ سے داغا،سینے پر کودے،جان لے لی

دسمبر 15, 2025
Dr Qazi Mohammad Mian Edu Honours Award

تعلیمی میدان میں سرگرم ڈاکٹر قاضی محمد میاں ایڈو آنرز ایوارڈ سے سرفراز

دسمبر 15, 2025
Universities Education Crisis

یونیورسٹیاں تباہی کے دہانے پر

دسمبر 15, 2025

حالیہ خبریں

US Visa Social Media Screening

امریکہ، ویزا چاہنے والوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھنگالے گا، ضوابط کا دائرہ بڑھایا

دسمبر 15, 2025
Naya Bihar Athar Murder Case

‘نیا بہار’: پلاس سے اطہر کی انگلیاں ،کان کاٹے، گرم سلاخ سے داغا،سینے پر کودے،جان لے لی

دسمبر 15, 2025
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein

روزنامہ خبریں مفاد عامہ ‘ جمہوری اقدار وآئین کی پاسداری کا پابند ہے۔ اس نے مختصر مدت میں ہی سنجیدہ رویے‘غیر جانبدارانہ پالیسی ‘ملک و ملت کے مسائل معروضی انداز میں ابھارنے اور خبروں و تجزیوں کے اعلی معیار کی بدولت سماج کے ہر طبقہ میں اپنی جگہ بنالی۔ اب روزنامہ خبریں نے حالات کے تقاضوں کے تحت اردو کے ساتھ ہندی میں24x7کے ڈائمنگ ویب سائٹ شروع کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ آپ کی توقعات پر پوری اترے گی۔

اہم لنک

  • ABOUT US
  • SUPPORT US
  • TERMS AND CONDITIONS
  • PRIVACY POLICY
  • GRIEVANCE
  • CONTACT US
  • ہوم
  • دیس پردیس
  • فکر ونظر
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • اداریے
  • ہیٹ کرا ئم
  • سپورٹ کیجیے

.ALL RIGHTS RESERVED © COPYRIGHT ROZNAMA KHABREIN

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist

کوئی نتیجہ نہیں ملا
تمام نتائج دیکھیں
  • ہوم
  • دیس پردیس
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • اداریے
  • ہیٹ کرا ئم
  • سپورٹ کیجیے

.ALL RIGHTS RESERVED © COPYRIGHT ROZNAMA KHABREIN