جولائی کی بغاوت کے سرکردہ رہنما اور بنگلہ دیش میں انقلاب مانچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی موت نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل گئی ہے۔ سنگاپور میں علاج کے دوران ہادی کی موت کی خبر پھیلتے ہی ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں مظاہرین نے تشدد کا سہارا لیا۔ مظاہرین نے بڑے اخبارات پرتھم آلو اور ڈیلی سٹار کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ ہندوستانی سفارت خانے پر پتھراؤ کی بھی اطلاعات ہیں۔
واضح رہے کہ ہادی کو نقاب پوش حملہ آوروں نے 12 دسمبر کو ڈھاکہ کی ایک مسجد سے نکلتے وقت گولی مار دی تھی۔ وہ شدید زخمی ہوئے تھے اور انہیں سنگاپور لے جایا گیا تھا، جہاں جمعرات کو ان کی موت ہو گئی۔ عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ہادی کی موت کو "قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان” قرار دیا اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور 20 دسمبر کو قومی یوم سوگ کا اعلان کیا۔

مظاہرین نے ڈھاکہ کے کاروان بازار میں پرتھم آلو اور ڈیلی سٹار کے دفاتر کو نشانہ بنایا۔ ڈیلی سٹار کی رپورٹر زائمہ اسلام سمیت کم از کم 25 صحافیوں کو عمارت سے بچا لیا گیا۔ ایک رپورٹر نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دھویں نے سانس لینا مشکل کر دیا۔چٹاگانگ (چٹاگانگ) میں بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمیشن پر پتھراؤ کیا گیا۔ مظاہرین نے بھارت مخالف اور عوامی لیگ مخالف نعرے لگائے۔ ڈھاکہ میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کا بھی گھیراؤ کیا گیا۔ بھارت نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر کھلنا اور راج شاہی میں ویزا مراکز بند کر دیے۔
مظاہرین نے ڈھاکہ چٹاگانگ ہائی وے کو بلاک کر دیا، سابق وزیر کے گھر میں توڑ پھوڑ کی، اور ثقافتی مرکز چھایانات کو نشانہ بنایا۔ بعض مقامات پر شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ اور عوامی لیگ کے دفاتر کو آگ لگا دی گئی۔
بھارت مخالف ہادی کون تھے؟
32 سالہ ہادی ’انقلاب مانچا‘ نامی طلبہ تحریک کا حصہ تھے اور بھارت کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے تھے
ہادی نے کہا تھا کہ انھیں عوامی لیگ کے حامیوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور انھوں نے اس بارے میں سوشل میڈیا پر بھی لکھا تھا۔ بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے اعلان کے فوری بعد ہی ان پر ہونے والے حملے نے بہت سے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔








