نئی دہلی :
بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار آدھی درجن ریاستوں میں عدم استحکام کا ماحول ہے۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اتنی مضبوط بی جے پی ہائی کمان کے باوجود پارٹی کی ریاستی اکائیوں میں تنازع ہے اور حکومت کو لے کر عدم استحکام بنا ہواہے، اسی لئے کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مغربی بنگال انتخابات کے بعد مرکزی قیادت کا دبدبہ و اقبال کم ہوا ہے ،تو پھر ہر بار کی طرح کئی لوگ اس میں بھی مودی- شاہ کا کوئی منصوبہ بتارہےہیں۔ ان کاکہنا ہےکہ کسی خاص مقصد سے پارٹی ہائی کمان خود ہی ریاستوں میں صورت حال پیدا کررہے ہیں ، حالانکہ وہ مقصد کیا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ مگر اتنا صاف نظر آرہا ہے کہ کئی ریاستوں میں توازن خراب ہوگیا ہے۔
سب سے پہلے اترپردیش کا معاملہ آتاہے ، جہاں وزیر اعظم کے قریبی آئی اے ایس افسر اروند شرما کو کئی ماہ قبل بھیجا گیا ، وہ ایم ایل سی بنے لیکن ابھی تک وزیر نہیں بن سکے۔ ریاستی حکومت میں کابینی توسیع کا معاملہ پھنس گیا ہے اور اسی دوران وزیر اعلیٰ کے وزیر اعظم سے ٹکراؤ کی خبریں چل رہی ہیں۔ ان خبروں کے درمیان پردیش بی جے پی کے ٹوئٹر ہینڈل سے مودی کی فوٹو ہٹ گئی اور نما می گنگے کی دستیابی کی تشہیر کے لیے جاری آن لائن سلائڈ میں بھی وزیر اعظم کی فوٹو نہیں لگائی گئی۔ عین انتخاب سے قبل اس طر ح کے واقعات سے پارٹی کے اندر اور باہر ماحول بگڑ رہاہے ۔
اترپردیش میں تنازع چل ہی رہا تھا کہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں تنازع شروع ہوگیا۔ مدھیہ پردیش بی جے پی کے سینئر لیڈروں کی آپس میں ملاقات نے کئی طرح کےمباحثے کو جنم دیا۔ کیلاش وجے ورگیہ ،پربھات جھا، وشنو دت شرما اور نروتم مشرا کی الگ الگ میٹنگوں سے اقتدار میں تبدیلی کی بات اٹھنے لگی اور بعد میں پارٹی لیڈروں کو صفائی دینی پڑی کہ ریاست میں قیادت تبدیل کی کوئی بات نہیں ہے۔ ادھر کرناٹک میں الگ وزیر اعلیٰ کو دستخط مہم چلانی پڑی۔ خبر ہے کہ 65 کے قریب ایم ایل اے نے یودی یورپا کو وزیر اعلیٰ بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے ۔ وہاں تو خیر جب سے یودی رپا وزیر اعلیٰ بنے ہیں تبھی سے ان کو ہٹانے کی ایک بحث جاری ہے ۔
شمال مشرقی ریاستوں میں ایک بار پھر تریپورہ کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ پردیش بی جے پی کے کئی لیڈر وزیر اعلیٰ بپلب دیب کو بدلنے کی مانگ کررہے ہیں ۔ پہلے کانگریس اورترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے لیڈر ہی وزیر اعلیٰ بدلنے کی مانگ کررہے تھے، لیکن اب بی جے پی کے اپنے لیڈر بھی کرنے لگے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ایم ایل اے کے دباؤمیں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کو بدلا گیا۔ گجرات کے بعد یہ دوسرا ہی معاملہ تھا ، جب وزیر اعلیٰ کو درمیان میں بدلا گیا ۔ اسی طرح بہار میں بی جے پی کا وزیر اعلیٰ نہیں ہے مگر حلیف پارٹی جے ڈی یو کے ساتھ پارٹی لیڈروں نے ٹکراؤ بڑھا دیا ہے ۔ یہ اچانک شروع ہوا گزشتہ کچھ ایک مہینے کا واقعہ ہے کہ آدھا درجن بی جے پی کے زیر اقتدارریاستوں میں عدم استحکام بنا ہوا ہے ۔ یہ بھی ہائی کمان کی کمزور ہوتی گرفت کا بھی اشارہ ہے۔