امریکی کانگریس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی سے متعلق ایک بِل پیش کیا گیا ہے اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی امریکہ آمد پر پابندی کو بھی اس بِل کا ایک اہم حصہ بنایا گیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں 24 مارچ کو رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ کے عنوان سے یہ بِل پیش کیا۔اس بل میں درج ہے کہ ایسی مخصوص بیرونی شخصیات پر پابندی عائد کی جائے جو پاکستان میں سیاسی حریفوں کو قید کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اِس بِل کے حوالے سے رپبلکن رکن جو ولسن کا مطالبہ ہے کہ ’ویزے پر پابندی کے ذریعے پاکستان کی فوجی قیادت پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ (پاکستان میں) جمہوریت کی بحالی اور عمران خان کی رہائی ممکن ہو۔‘
امریکی ایوان نمائندگان میں اس بل کے پیش کیے جانے پر بی بی سی نے دفتر خارجہ کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے عمران خان کی قید پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔ماہرین اس طرح کی قانون سازی کو انفرادی عمل قرار دے رہے ہیں۔
سینیئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’یہ خبر پی ٹی آئی کے لیے اطمینان کا باعث تو ہے‘ مگر اس خوشی کی انھیں کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ ان کی رائے میں ’یہ ایک انفرادی فعل ہے اور ایسی کسی مجوزہ پابندی کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔‘ان کی رائے میں اس قانون سازی پر جاری لابنگ حکومت کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔
وکیل مارگن کیرل کولوروڈو اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔ وہ قانون سازی کے مرحلے میں لابنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتی ہیں۔انھوں نے اپنے دفتر میں بھی ایسے افراد پر پابندی عائد کر رکھی ہے جو انھیں کسی بھی طرح سے سپورٹ کی آفر کرتا ہے۔ ان کے مطابق وہ جب سپیکر تھیں تو انھوں ایسے افراد پر اپنے دفتر میں داخلے پر پابندی عائد رکھی تھی۔