گڑگاؤں پولیس اتر پردیش کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یووا مورچہ کے ضلع نائب صدر کو گرفتار کیا ہے۔ ملزم پر ایک ہندو لڑکی کی مبینہ عصمت دری اور قتل کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام ہے، اس کا الزام ایک مسلم نوجوان پر ہے۔ پولیس نے واضح کیا کہ گروگرام میں ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔
ملزم کی شناخت 25 سالہ شوریہ مشرا (عرف ہری اوم مشرا) کے طور پر کی گئی ہے، جو اتر پردیش کے کوشامبی ضلع کے چروا گاؤں کا رہنے والا ہے۔ وہ ایل ایل بی ہولڈر اور وکیل ہے وہ کوشامبی ضلع میں بی جے وائی ایم کا ضلع نائب صدر ہے۔ پولیس کے مطابق، مشرا نے 9 دسمبر ءکو سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹویٹر) پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گروگرام میں ایک مسلم نوجوان نے ایک ہندو لڑکی کی عصمت دری اور قتل کر دیا ہے۔ پوسٹ میں فحش تصاویر اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیز زبان شامل تھی۔
11 دسمبر کو، گروگرام پولیس نے پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ جو حقائق پھیلائے جا رہے ہیں وہ مکمل طور پر غلط ہیں اور فیک نیوز پھیلانے کے نتیجے میں قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود پوسٹ نہیں ہٹائی گئی اور وائرل ہوگئی۔ اسی دن سائبر کرائم پولیس اسٹیشن ویسٹ، گروگرام میں ایک شکایت درج کروائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پوسٹ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی میں خلل ڈال رہی ہے۔
پولیس نے تعزیرات ہند اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس میں فرضی خبریں پھیلانا، فحش مواد شیئر کرنا اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دینا شامل ہے۔ 15 دسمبر کو انسپکٹر سندیپ کمار کی قیادت میں پولیس ٹیم نے مشرا کو کوشامبی، اتر پردیش سے گرفتار کیا۔ پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مشرا نے جان بوجھ کر قابل اعتراض مواد کو کاپی کرکے دوبارہ پوسٹ کیا۔ پولیس نے واردات میں استعمال ہونے والا موبائل فون بھی قبضے میں لے لیا۔
منگل کو مشرا کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔گروگرام پولیس کے ترجمان سندیپ سنگھ نے کہا، "ملزم نے جان بوجھ کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کے لیے جھوٹا مواد استعمال کیا۔ اس طرح کی پوسٹس سے معاشرے میں شدید بدامنی پھیل سکتی ہے، اور پولیس ایسے معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔”







