قومی سیاست میں داخلے کے دس سال بعد یہ پہلا موقع ہے جب اپوزیشن نے امت شاہ کے خلاف اس طرح کا گھیراؤ شروع کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب اپوزیشن نے بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ کے کسی بیان کو مسئلہ بنا کر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس امبیڈکر کی توہین کو ایشو بنا رہی ہے اور وزیر داخلہ سے معافی اور استعفیٰ مانگ رہی ہے۔حالانکہ بی جے پی نے بھی پوری طاقت سے کانگریس پر حملہ کیا ہے اور تاریخ کے اوراق کھول کر بتا دیا ہے کہ کس طرح کانگریس حکومت کے دوران بابا صاحب کی بے عزتی کی گئی تھی مگر یہ داؤ کام نہیں آرہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ راجیہ سبھا میں بابا کی توہین کے ذمہ دار امت شاہ ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست کا چانکیہ کہلائے جانے والے امت شاہ پہلی بار کسی بھول بھلیاں میں پھنستے نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پریس کانفرنس کرکے اس معاملے میں وضاحت دینا پڑی۔وہیں پی ایم کو لگاتار چھ ٹوئٹ کرنا پڑھئے اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ـ امبیڈکر پر امت شاہ کے راجیہ سبھا میں کیے گئے ایک تبصرے نے اپوزیشن کو ایک ایسا ہتھیار دیا جس سے وہ بی جے پی کو بری طرح گھیر سکتی ہے۔ اپوزیشن نے بھی اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اسے دن ہی سے ایشو بنا لیا اور امت شاہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ اگلے روز ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ ایک دن بعد جمعرات کو پارلیمنٹ میں بھی یہ سیاسی لڑائی دیکھنے میں آئی۔اور دھکامکی کے واققہ میں دو ایم پی زخمی ہوگئے .
جب امت شاہ وزیر داخلہ تھے، مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹا دیا تھا۔ امیت شاہ مودی کے دائیں ہاتھ کی طرح کام کرتے ہیں۔ امت شاہ حکومت کے ایک مضبوط ستون ہیں جو بی جے پی کے ہر وعدے کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ امت شاہ نہ صرف حکومت چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ریاست سے لوک سبھا انتخابات تک جیت کی حکمت عملی بنانے اور اسے نافذ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بی جے پی کے صدر رہتے ہوئے انہوں نے پارٹی کو کئی بڑی کامیابیاں دلائی ہیں۔کءا وہ اس چکرویوہ سے کیسے نکلیں گے اور پارٹی کو اس بحران سے کیسے نکالیں گے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے فی الحال راہل پر ایف آئی آر کرانے اور ان کو ویلن بنانے کی کوشش سے اپنا نریٹو بنانے اور کانگریس کے نریٹو کو کند کرنے کی حکمت عملی کتنی کامیاب ہوگی یہ دیکھنا ہوگا ـ