غزہ کی پٹی میں 19 جنوری سے نافذ العمل فائر بندی کا معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی خونی جنگ دوبارہ مسلط کر دی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے باور کرایا ہے کہ ان کی فوج دو گنا طاقت استعمال کرے گی۔ ساتھ ہی زور دیا کہ اب کے بعد سے مذاکرات صرف حالت جنگ میں ہوں گے۔
ادھر دو اسرائیلی ذمے داران نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ کی طرف واپسی بنیادی طور پر ایک مذاکراتی حربہ ہے تا کہ حماس کو اپنے مطالبات میں نرمی پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بتائی
ایک اسرائیلی ذمے دار کے مطابق نیتن یاہو نے گذشتہ دونوں کے دوران میں دیگر قیادت سے ملاقات کی۔ انھوں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے پیش کیا جانے والا ایک اختیار چن لیا۔ اس کے تحت غزہ میں درجنوں اہداف پر شدید فضائی حملے کیے جائیں گے۔ اس دوران حماس تنظیم میں درمیانی سے اعلیٰ سطح تک کے قائدین اور رہنماؤں کو ہلاک کیا جائے گا جو تنظیم کی طاقت کو دوبارہ یکجا کر رہے تھے۔ تاہم سینئر قیادت کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
ذمے دار کے مطابق اسرائیل نے دیگر اختیار بھی تیار کیے ہیں جن میں نیا زمینی حملہ شامل ہے۔
ایک دوسرے اسرائیلی ذمے دار نے فوجی منصوبہ بندی کو "مرحلہ وار” قرار دیا۔ ذمے دار نے بتایا کہ حکومت اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ آیا منگل کے روز ہونے والے فضائی حملے مزید شدید حملوں سے قبل مذاکرات پر اثر انداز ہوں گے۔
ذمے دار نے مزید بتایا کہ اگر حماس مذاکرات کی میز پر واپس آ جاتی ہے تو فوجی آپریشن روک دیا جائے گا۔
اس سے قبل حماس نے منگل کے روز کہا تھا کہ نیتن یاہو نے فائر بندی معاہدہ ناکام بنانے کے لیے دوبارہ جنگ شروع کی ہے۔ تنظیم کے مطابق اس نے مذاکرات کے دوران لچک دکھائی اور امریکی خصوصی ایلچی اسٹیف ویٹکوف کی تجویز پر آمادگی ظاہر کی اور اس کے ساتھ مثبت طریقے سے معاملہ کیا۔
یاد رہے کہ فائر بندی معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ یکم مارچ کو اختتام پذیر ہو گیا۔ اسرائیل اس پہلے مرحلے میں توسیع اور مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے۔ادھر حماس نے یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف منتقلی پر زور دیا ہے جیسا کہ مقرر ہے۔ دوسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا انخلا اور اسرائیل کے بقیہ تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی مذکور ہے۔