نئی دہلی :(ایجنسی)
آخر کار بی جے پی نے اعتراف کر ہی لیا کہ حال میں اختتام پذیر یوپی اسمبلی انتخابات میں اس کی فتح میں مایاوتی کی بی ایس پی نے اہم کردار نبھایا ہے۔ بی جے پی کی داخلی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ بیشتر سیٹوں پر بی ایس پی کی موجودگی نے ووٹوں کی تقسیم کی جس کے دم پر اسے 273 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ اتر پردیش بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کو لے کر ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ تیار کی ہے اور اسے پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھیجا گیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کو مغربی اتر پردیش میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ مغربی اتر پردیش میں آر ایل ڈی نے 30 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا، اور دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ان سیٹوں پر کسان تحریک کا وسیع اثر ہے۔ لیکن پھر بھی وہ ان میں سے صرف 8 سیٹیں ہی جیت پائی۔ اس کے برعکس بی جے پی کو بی ایس پی امیدواروں کی موجودگی کا فائدہ ملا اور وہ باقی سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
بی جے پی کی رپورٹ کے مطابق بی ایس پی نے کم از کم 122 سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ یہ وہ سیٹیں ہیں جہاں بی ایس پی نے اسی ذات کے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جن ذاتوں سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار تعلق رکھتے تھے۔ اس سے بی جے پی کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ ایسی 91 سیٹیں جہاں سماجوادی پارٹی نے مسلم امیدوار اتارے تھے، وہاں بی ایس پی نے بھی مسلم امیدوار کو انتخاب لڑوایا۔ اسی طرح 15 سیٹوں پر بی ایس پی نے یادو امیدواروں کو اتارا، کیونکہ ان سیٹوں پر سماجوادی پارٹی نے بھی یادو امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ بی جے پی کو ان پالیسیوں کا فائدہ ملا اور اس نے 122 میں سے 68 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔
اتر پردیش اسمبلی کے لیے پہلے مرحلہ کے انتخاب میں 58 سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی تھی۔ یہ سیٹیں خصوصاً مغربی اتر پردیش کی تھیں جہاں مانا جا رہا تھا کہ کسان تحریک کا وسیع اثر ہے۔ حالانکہ سیاسی پنڈتوں کا قیاس تھا کہ ان سیٹوں پر بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا، لیکن نتیجے بالکل الٹ آئے۔ بی جے پی نے ان سیٹوں پر 17 جاٹ امیدوار اتارے تھے جس میں سے 10 نے جیت حاصل کی۔ وہیں سماجوادی پارٹی نے 7 جاٹ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا جن میں سے 3 کامیاب رہے۔ آر ایل ڈی نے 10 جاٹوں کو اتارا تھا اور اس کے صرف 4 ہی رکن اسمبلی بن سکے۔ مجموعی طور پر پہلے مرحلہ میں ہوئی ووٹنگ میں مغربی اتر پردیش کی 58 میں سے 46 سیٹیں بی جے پی کے حصے میں گئیں۔
بی جے پی نے مانا ہے کہ مسلم اور یادووں نے سماجوادی پارٹی کو ٹوٹ کر ووٹ دیا اور جہاں پارٹی نے اعلیٰ ذات کے امیدوار اتارے تھے، انھیں بھی ان دونوں طبقات کی حمایت ملی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لکھیم پور کھیری واقعہ کا اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہیں ملا اور بی جے پی نے لکھیم پور ضلع کی سبھی سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ رپورٹ کے مطابق سماجوادی پارٹی نے اعظم گڑھ، مئو اور غازی پور میں بی جے پی کو سخت ٹکر دی۔ ان سیٹوں پر راجبھر طبقہ نے نتیجہ خیز کردار نبھایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 214 اراکین اسمبلی کو پھر سے میدان میں اتارنے کا بھی بی جے پی کو فائدہ ملا۔ حالانکہ شروعات میں بی جے پی نے ایک طرح سے طے کر لیا تھا کہ بیشتر موجودہ اراکین اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا، کیونکہ اقتدار مخالف لہر کا اثر نظر آ رہا تھا۔ لیکن بعد میں 214 موجودہ اراکین اسمبلی کو پھر سے میدان میں اتارنا فائدہ مند رہا۔ ان 214 میں سے 170 اراکین اسمبلی دوبارہ کامیاب ہوئے۔ اس طرح ان کی جیت کا اوسط 79 فیصد رہا۔ اسی طرح جن 104 سیٹوں پر بی جے پی نے امیدوار بدلے، ان میں سے 80 پر بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی۔
آخری نتیجوں کے بعد 4 سیٹیں ایسی تھیں جہاں بی جے پی کو 500 سے بھی کم ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ 7 سیٹیں ایسی ہیں جہاں اس کی جیت کا فرق 500 سے کم ووٹ کا رہا۔