روچیتا:- موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی ہم میں سے اکثر افراد کو بس اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ میٹھے اور رسیلے آم کب بازار میں دستیاب ہوں گے۔
آم نہ صرف اپنے میٹھے ذائقے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں بلکہ یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ مگر ایک جانب وہ لوگ بھی ہیں کہ جو اس کے میٹھے ذائقے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
چونکہ آم میں قدرتی طور پر شوگر کی مقدار خاصی زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ انسانی جسم میں داخل ہوتے ہی شوگر کی سطح کو بڑھا دیتا ہے۔
لہذا طبی ماہرین کی جانب سے ذیابیطس اور بلڈ شوگر کے مریضوں کو بعض اوقات اِس پھل کو کھانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا آم واقعی ذیابیطس میں اضافے کا باعث بنتا ہے؟ ذیابیطس کے شکار افراد کو آم کھانے سے کب پرہیز کرنا چاہیے اور کب وہ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟
ہم نے اس تحریر میں ان سوالات کے جواب طبی ماہرین کی مدد سے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے تاہم اگر آپ ذیابیطس اور بلڈ شوگر جیسے عارضوں میں مبتلا ہیں تو آم کھانے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کیجیے گا۔
انڈیا کی ریاست گجرات کے اہم شہر احمد آباد میں ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹر منوج وٹھلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر آپ کو ذیابیطس ہے تو آپ کو آم نہیں کھانا چاہیے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’آم میں جو شکر موجود ہوتی ہے وہ فرکٹوز کی شکل میں ہوتی ہے، تاہم یہاں یہ بات اہم ہے کہ اس کا استعمال بھی محدود مقدار میں ہونا چاہیے۔‘
اس کے علاوہ آم میں اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس میں فائبر اور پوٹاشیم ہوتا ہے جو ہاضمے کے عمل میں مدد دیتا ہے اور یہ دونوں اجزا بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
فائبر خون میں آم سے شکر کے جذب ہونے کی رفتار کو سست کر دیتا ہے اور یہ جسم کے لیے کاربوہائیڈریٹس کے بہاؤ کو منظم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
آم کا گلائسیمک انڈیکس یکساں ہوتا ہے، لہٰذا اگر آم کو صحیح مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
کم گلائسیمک انڈیکس والی غذائیں معمول کے مقابلے میں آہستہ آہستہ ہضم اور جسم میں جذب ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں اچانک اضافے کے بجائے بلڈ شوگر کی سطح میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
٭شوگر والے جو کو کتنا آم کھانا چاہیے؟
انڈیا میں محققین کی جانب سے ’مینگو اینڈ ذیابیطس‘ کے عنوان سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق جن لوگوں کو ذیابیطس ہے انھیں آم کھانا بند نہیں کرنا چاہیے بلکہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اس کا احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔
اسی بارے میں ڈاکٹر منوج اور دیگر محققین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آم کو احتیاط سے کھایا جائے تو اس سے ذیابیطس اور شوگر بڑھنے کا امکان نہیں ہوتا۔
ایک وقت میں بہت زیادہ آم کھانے سے گریز کرنا چاہیے اور یہ کہ آم کی کم مقدار آپ کے لیے نقصاندہ نہیں ہے۔
ایک شخص روزانہ 100 سے 150 گرام آم یا دن میں تین مختلف اوقات میں 50، 50 گرام آم کھا سکتا ہے۔
کھانا کھانے کے بعد انسان کی بلڈ شوگر زیادہ ہوتی ہے اور آم کھانے سے شوگر میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بنیادی غذا کے ساتھ آم نہ کھائیں۔ کھانے کے اوقات کے درمیان آم کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ آم کے گلائسیمک انڈیکس کو کم کرنے کے لیے اسے دیگر فائبر سے بھرپور غذاؤں جیسا کہ سلاد، دالیں اور اناج کے ساتھ کھانا چاہیے۔ جسم میں جتنا زیادہ فائبر ہوتا ہے، ہاضمے کا عمل سست ہوتا ہے، سست ہاضمہ کے عمل سے آپ کا پیٹ بھرا ہوا محسوس کرے گا۔ اس کے علاوہ فائبر بلڈ شوگر لیول کو تیزی سے نہیں بڑھائے گا۔
جب آم کھایا جاتا ہے تو ایک فرد ایک آم کھاتا ہے لیکن جب اِس کا جوس یا ملک شیک بنایا جاتا ہے تو اس میں 2 یا 3 آم استعمال ہوتے ہیں اور بات یہاں رُکتی نہیں بلکہ اس میں چینی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شوگر بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے پھل جس سے شوگر لیول بڑھنے کا خدشہ ہو اُسے کاٹ کر استعمال کیا جانا فائدہ مند ہوتا ہے۔لہٰذا ذیابیطس میں مبتلا افراد آم کو اعتدال کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔