تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
مستحقینِ زکوٰۃ کوہم وقتاً فوقتاً کچھ رقم دیتے رہتے ہیں ، لیکن اُس وقت دھیان نہیں رہتا کہ جو کچھ دے رہے ہیں ، وہ زکوٰۃ کی مد سے ہے ۔ کیا بعد میں جب حساب کتاب کی نوبت آئے تو ادا شدہ رقم کو زکوٰۃ میں محسوب کیا جا سکتا ہے؟ مطلب یہ کہ کیا زکوٰۃ کی نیت بعد میں کی جا سکتی ہے؟
جواب:
کوئی عمل جس نیت سے کیا جائے اسی کا اعتبار ہوگا ۔ عمل پہلے کر لیا جائے ، بعد میں اس کے سلسلے میں کوئی نیت کی جائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:اِنَّمَاالأعمَالُ بِالنِّیاتِ وَ اِنَّمَا لِکُلِّ امرِیئٍ مَا نَوَی (بخاری:1، مسلم: 1907) ”اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔“
کسی غریب شخص کی امداد کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دی جارہی ہو تو دیتے وقت ہی نیت کرنی ضروری ہے کہ وہ رقم کس مد میں دی جا رہی ہے؟ اُس وقت کوئی نیت نہیں کی گئی ، یا صدقہ کی نیت کی گئی ، بعد میں حساب کرتے وقت اس رقم کو زکوٰۃ میں شامل کر لینے کا ارادہ کیا جائے تو ایسا کرنا درست نہ ہوگا ۔
فقہاء نے اتنی رعایت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی غریب کو کچھ رقم دی ۔ اُس وقت اس نے زکوٰۃ کی نیت نہیں کی تھی ۔ بعد میں جب تک وہ رقم غریب کی ملکیت اور قبضے میں رہے ، اس وقت تک دینے والا زکوٰۃ کی نیت کر سکتا ہے ، لیکن اگر غریب نے وہ رقم خرچ کر لی ہو ، تب زکوٰۃ کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا ۔