دنیا بھر میں سرمایہ کاروں پر گھبراہٹ کیوں طاری ہے؟
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس کے ایوانوں میں اس وقت کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ آیا عالمی معاشی بحران آ رہا ہے یا نہیں۔ اس بات کی توثیق بی بی سی کے اقتصادی امور کے ایڈیٹر فیصل اسلام نے کی جو سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقد ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کی کوریج کے لیے وہاں موجود تھے۔
دنیا میں سرمایہ کاری کے سب سے بڑے فنڈز کے منتظمین کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں آنے والے معاشی خطرات کے بارے میں ایک ایک کر کے آگاہ کیا جاتا رہا ہے، گو کچھ سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ۔ تصویر کا تاریک پہلو دیکھنے والے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مایوس ہیں۔
اربوں ڈالر کے انتظام کے ذمہ دار سیاست دان اس معاملے کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ اقتدار کے اعلیٰ سطحی حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہے۔
عالمی بینک کے سربراہ ڈیوڈ مالپاس نے چند روز قبل ایک تقریب میں خبردار کیا تھا کہ توانائی، خوراک اور کھاد کی قیمت بڑھنے پر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ہم کس طرح کساد بازاری سے بچ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں دگنے اضافے کا محض خیال ہی اپنے طور پر کساد بازاری کو جنم دینے کے لیے کافی ہے۔
’آفات کا ممکنہ امتزاج‘
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے زیادہ نرم لہجے، جس میں تشویش کا عنصر واضح طور پر جھلک رہا تھا کہا کہ ’افق تاریک ہو چکا ہے۔‘
جارجیوا نے مزید کہا کہ کووڈ 19 وبا کے اثرات، مالیاتی منڈیوں میں ہیجان، موسمیاتی تبدیلی کے مسلسل خطرے، یوکرین میں جنگ اور خوراک کا موجودہ بحران سب اکھٹا ہو گیا ہے جس سے ’آفات اکٹھی‘ ہو گئی ہیں۔
اپنے الفاظ کا مطلب واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ انھیں دنیا کی بڑی معیشتوں کے لیے کساد بازاری کی توقع نہیں ہے لیکن وہ اسے مسترد بھی نہیں کر سکتیں۔‘ انھوں نے ڈیووس میں افتتاحی اجلاس میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’نہیں، ابھی نہیں، (لیکن) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بعید از قیاس ہے۔‘ اس کے متوازی امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’امریکی کساد ناگزیر نہیں ہے۔‘
حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو سکڑنے سے بچانے کے بارے میں بات ہو رہی ہے، اگرچہ ہم امید کی کرن روشن رکھنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔
ایک خطرہ جو دیگر چیزوں کے علاوہ زیادہ افراط زر (چار دہائیوں میں سب سے زیادہ) کی وجہ سے پرورش پاتا رہا ہے وہ سپلائی چین میں رکاوٹوں اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے شدید ہو گیا ہے۔
کاروباری اور سیاسی اشرافیہ عالمی معیشت کی اصل صورتحال سمجھنے کے لیے مختلف ٹکڑے جوڑ کر واضح تصویر بنانے کے لیے بے قرار ہیں کیونکہ یوکرین میں جنگ سے افراط زر میں اضافہ جاری ہے۔
کساد بازاری یا ریسیشن ہے کیا؟
اس بحث کے درمیان یہ سوال ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے کہ کساد بازاری یا مندی اصل میں ہے کیا؟ بہت سے ماہرین معاشیات تکنیکی مندی کی بات کرتے ہیں، جب مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو مسلسل دو سہ ماہیوں میں گراوٹ کا شکار رہی ہے۔
جی ڈی پی کی شرح نمو کمپنیوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے کہ کب زیادہ کارکنوں کو رکھنا ہے اور ان کی خدمات حاصل کرنی ہیں یا کم سرمایہ کاری اور اخراجات کم کرنے ہیں اور اپنی افرادی قوت کو کم کرنا ہے۔
حکومتیں اسے ایسے فیصلے کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں جو ٹیکسوں سے لے کر اخراجات تک ہو سکتے ہیں۔ شرح سود بڑھانے یا کم کرنے پر غور کرتے وقت افراط زر کے ساتھ ساتھ مرکزی بینکوں کے لیے یہ ایک اہم اشارہ ہے۔
تاہم دوسرے لوگ زیادہ لچکدار نقطہ نظر کے حامل اسے ’معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی‘ قرار دیتے ہیں جو پوری معیشت میں پھیلتی ہے اور چند ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہتی ہے۔
عالمی بینک یا آئی ایم ایف جیسی بین الاقوامی تنظیمیں عالمی مندی کو ایک ایسا سال سمجھتی ہیں جس میں اوسطاً عالمی سطح پر شہریوں کی حقیقی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
حالیہ دہائیوں میں جن برسوں میں عالمی معاشی سکڑی ہے ان میں 1975، 1982، 1991، 2009 اور 2020 شامل ہیں۔
تضاد یہ ہے کہ اس تازہ ترین مندی میں جب لوگ مشکلات کا شکار ہیں، سٹاک مارکیٹس نے ناقابل یقین حد تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے معیشت کو سب سے بڑا دھچکا عالمی وبا سے پہنچا جس نے گلوبلائزیشن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ایسے اثرات چھوڑ ے جو ابھی دور ہو ہی رہے تھے جب فروری کے اواخر میں روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔
اتنی بڑی تعداد میں جیوپولیٹکل تبدیلی کے ساتھ، اس سال کے لیے معاشی ترقی کے تمام تخمینوں پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔
چینی عنصر
اس صورتحال میں چین ایک بہت بڑا معمہ بن گیا ہے۔ ایشیا کی دیو قامت معیشت، جو تمام عالمی پیداوار کا 19 فیصد ہے تجزیہ کاروں کی نظروں میں اس کی معیشت میں سست روی کا براہ راست اثر باقی دنیا پر پڑے گا۔ ایسا دو اعتبار سے ہو گا، دوسرے ممالک سے اشیا اور خدمات کے خریدار کے طور پر اس کی اہمیت اور بین الاقوامی تجارت کی فراہمی کرنے والی سپلائی کی کڑیوں میں اس کا کلیدی کردار ہے۔
کووڈ- 19 کی تازہ ترین وبا کی وجہ سے ملک کے کچھ علاقوں میں شدید لاک ڈاؤن ہو گیا ہے جس سے چینی بندرگاہوں میں ٹریفک جام اور کامرس، صنعتوں اور جائیداد کے کاروبار جیسے شعبوں پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
ڈیوڈ مالپاس نے چین کے بعض بڑے شہروں میں بندشوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے مطابق ’اب بھی دنیا پر اثرات یا سست اثرات ہیں۔‘
عالمی بینک کے نمائندے نے کہا کہ ’چین پہلے ہی ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں مندی سے گزر رہا تھا لہٰذا روس کے حملے سے قبل چین کی ترقی کی پیش گوئی 2022 تک کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو گیا جس سے چین کے لیے ترقی کی توقعات میں مزید کمی آئی۔
معاشی ترقی پر بریک
امریکہ میں فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے کہا ہے کہ جب تک افراط زر قابو میں نہیں ہو جاتا ایجنسی شرح سود میں اضافہ جاری رکھے گی کیونکہ یورپ یوکرین میں بحران سے متعلق ایندھن کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
طاقت کے عظیم مراکز سے باہر کم ترقی یافتہ ممالک میں خوراک کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں غریب ترین افراد قحط کا شکار ہیں۔ ماہرین معاشیات اور بینکاروں میں اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ آیا دنیا براہ راست مندی کی طرف جا رہی ہے یا یہ صرف معاشی سست روی ہے۔
دریں اثنا روزمرہ زندگی کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مرکزی بینک افراط زر کے دباؤ کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی شرح سود اگرچہ افراط زر پر قابو پا سکتی ہے، قرض لینے اور قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ کر سکتی ہے لیکن معاشی ترقی پر بریک کا کام بھی کر سکتی ہے۔ اس آفاقی منظر نامے میں ہمیں یہ بھی کہنا ہو گا کہ چین میں کووڈ 19 کی تازہ ترین وبا کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں اسے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
’سرمایہ کار اور بینکار پریشان ہیں‘
ان میں سے ایک مالیاتی صنعت کی عالمی ایسوسی ایشن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے چیف اکنامسٹ رابن بروکس نے ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’عالمی مندی آنے والی ہے۔‘ ’یہ آئے یا نہ آئے، ہمیں اس وقت تک پتا نہیں چلے گا جب تک مہینے گزر نہیں جاتے اور اشاریوں سے ثابت نہیں ہو جاتا۔‘
(بشکریہ : بی بی سی اردو)