ہیمنت کمار جھا
جب آپ اسٹیٹ کو ناکام قرار دیتے ہیں توبڑی ہوشیاری سے اسٹیٹ کی چوٹی پر بیٹھے لوگوںکو ان کی ناکامیوں کے لیے بچا رہے ہوتے ہیں۔ ایک معروف میگزین نے اپنے سرورق پر جلی حروف میں اپنے سرورق کا مضمون دیا ’’ ناکام اسٹیٹ‘‘ بیک گراؤنڈ میں جلنے کے انتظار میں پڑیں لاشوں کی لمبی لائن کی فوٹو ہے۔
میڈیا اس قدر ہوشیار بن گیا ہے ، یہ اس دورا کا سب سے بڑا لمیہ ہے کیونکہ وہی ہے جو اسٹیٹ کی چوٹی پر بیٹھے لوگوں کی ناکامیوں کو اسٹیٹ کی ناکامی قرار دے کر لوگوں کے غصہ کے رخ کو موڑنے کی کوشش کررہاہے۔ وہ ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ ہم نے ایسا ہی اسٹیٹ بنایا ہے تو آج اس خطرناک بحران میں تمام ناکامیوں کے سب سے بڑے قصوروار ہم ہی ہیں۔
انفارمیشن کے انقلابی دور میں میڈیا کی بہت سی شکلیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ نام نہاد مرکزی دھارے میں شامل میڈیا ایک بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے جو اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے۔ سٹیزن جرنلزم کے اس دور میں ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، انفارمیشن کا حامل ہے۔ ظاہر ہے اقتدار کے نہ چاہنے کے باوجود سسٹم کی ناکامیوں کے ثبوت تسلسل سے سامنے آرہے ہیں۔
ہم سمجھنے کی کوشش نہ کریں یہ الگ بات ہے ، لیکن وبا کی اس دوسری لہر نے ہمیں سخت پیغام دے دیا ہے کہ عوامی خدمات کے آپریشن کو لے کر حال کے دہائیوں میں منصوبہ ساز پالیسی جس ملک میں آگے بڑھ رہے تھے ، اس پر از سرنو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مثلاً بیمہ پر مبنی میڈیکل سسٹم جب امریکہ جیسے امیر اور خوشحال ملک میں اس کورونا بحران میں منھ کے بل گر گیا تو ہماری کیا اوقات ہے۔ لوگوں کی جیب میں میڈیکل بیمہ کے کارڈ پڑے رہ گئے اور اسپتالوں کی چوکھٹ پر ان کا دم اکھڑتا گیا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسٹیٹ کی چوٹی پر بیٹھے لوگ ہمیں کس طبی ڈھانچے کی طرف لے جارہے تھے۔ نہ صرف لے جارہے تھے ،بلکہ دھوم دھام سے لے جارہے تھے اور اسے اپنی بڑی کامیابی بھی بتا رہے تھے ، ان کے چلے چپاٹے تو اسے عہد سازی کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اب میڈیکل بیمہ کارڈ غریبوں کی جیب میں ہوگا اور وہ سپراسپیشلٹی والے اسپتالوں میں علاج کرا سکیں گے۔
حالات سامنے ہیں، سپر اسپتالوں کی تو بات چھوڑ ہی دیں، چھوٹے نجی اسپتالوں نے بھی کورونا بحران میں لوٹ کا ریکارڈ قائم کیا ۔ بابو لوگوں کی جہاں اوقات جواب دے رہا ہے وہیں ان غریبوں کے بس میں کیا ؟ جو سرکاری بیمہ کا کارڈ لئے ادھر سے ادھر بھٹکتے مر گئے۔
اس غیر انسانی لوٹ کے سلسلے کو ہم اسٹیٹ کی ناکامی کہیں یا اسٹیٹ کی چوٹی پر بیٹھے لوگوں کی ناکامی کہیں؟
در اصل اقتدار کے پاس اتنا خود اعتمادی اور اخلاقی طاقت نہیں ہے کہ وہ اس لوٹ پر روک لگاسکیں۔ قوانین تو ضرور ہوں گے، کیونکہ نہیں ہوں گے، آخر اسٹیٹ ہے، لیکن انتظامیہ سسٹم ناکام ہے اور لوگ مایوس ہے۔ غیرمنطقی ہیں۔
ایک مباحثے میں ایک ماہر بتا رہے تھے کہ ملک کے طبی نظام میں نجی شعبے کی شراکت داری بڑھ کر 74 فیصد ہوگئی ہے ، جبکہ اسی تناسب سے حکومتی نظام میں شرکت داری بھی سکڑ رہی ہے۔ کئی سالوں کے دوران ڈاکٹروں اور معاون عملے کی تقرریوں کو جان بوجھ کر حوصلہ شکنی کی گئی۔ ان کی ہزاروں آسامیاں خالی ہیں۔ یہ اسٹیٹ کی ناکامی نہیں ہے بلکہ چوٹی پر بیٹھے لوگوں کی ناکامی ہے۔
اسٹیٹ صرف لیڈروں سے نہیں چلتا، افسران، ملازمین، ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف، ٹیچرس، پولیس اہلکار وغیرہ بھی ریاست کے حصہ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اپنی جان کو ہتھیلی پر لے کر اس وبائی مرض سے لوگوں کو بچانے کے دو چار ہیں۔ اس بحران میں اگر کچھ بھی مثبت چیزیں ہو رہی ہیں تو پھر ایسے لوگوں کا اس میں بڑا کردار ہے۔چوٹی پر بیٹھے لوگوں کی نااہلی بے نقاب ہوگئی ہے۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آکسیجن کی عدم دستیابی کے سبب اس کی تقسیم کا نظام ناکارہ ثابت ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں تک کہ ہزاروں افراد آکسیجن کے بغیر ہی مر گئے کیونکہ انہیں یہ وقت پر دستیاب نہیں ہوئی ۔
پیتل پر سونے کا پانی چڑھا دینے سے اس کی چمک تو پیدا کرتی ہے لیکن جب کسوٹی پر اسے کسا جاتا ہے تو ساری مصنوعی چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔ میڈیا نے ،کارپوریٹ کی طاقتوں نے ،سیاسی طبقے نے پیتل کے برتن پر سونے کا رنگت لگا کر اس کی برانڈنگ کی، برانڈنگ کے اس دور میں کچھ بھی بیچ لینا آسان ہے ، تو پیتل بھی سونا کی قیمت بیچ دیا۔ آج جب وقت اور حالات کسوٹی بن کر سامنے آگئے تو کیا ’گڈ گورننس‘ کیا ’اچھے دن ‘، سب کی اصلیت سامنے آگئی۔
آپ اسٹیٹ کے نظام کو لوگوں کو انسانیت مخالف بنانے کی راہ پر گامزن کرتے جائیں اور جب انسان مرنے لگے تو اسٹیٹ کو ہی ناکام قرار دے دیں؟ یہی نہیں چل سکتا۔ ناکامیوں کی ذمہ دار اصولوں کی اور اصول سازوں کی ذمہ داریوں کو تعین کرنا ہوگا۔