نئی دہلی :
کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ہندوستان میں تباہی مچا رکھی۔ اس مہلک وائرس کی وجہ سے ہر روز اس ملک میں تقریباً 4000 لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس درمیان عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنسداں ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے کووڈ -19 وبا کی آنے والی لہروں کے بارے میں انتباہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آنے والے وقت میں کورونا کی مزید لہریں ہندوستان کی مشکلات بڑھاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ کورونا سے جنگ میں اگلے 6-18 ماہ ہندوستان کی کوششوں کے لئے بہت اہم ثابت ہوں گے۔
‘’دی ہندو‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ ‘ وبا کی اس جنگ میں بہت کچھ وائرس کے پھیلاؤ پر بھی منحصر ہے۔ ویریئنٹرس کے خلاف ویکسین کی صلاحیت اور ویکسین سے بننے والی قوت مدافعت کتنے وقت تک لوگوں کا بچا ؤ کرتی ہے ، یہ کافی معنی رکھتاہے۔ اس میں بہت کچھ بدل رہاہے ۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ اس مہلک مرحلے کا یقیناً طور پر خاتمہ ہوگا، 2021 کے آخری تک ہم ایسا دیکھ سکتے ہیں۔ جب دنیا کی تقریباً 30 فیصد آبادی ویکسینٹ ہوجائے، یہی وہ وقت ہوگا جب ہم لگاتار ہورہیں اموات میں گراوٹ دیکھنا شروع کریں گے۔ اس کے بعد 2022 میں ویکسینیشن میں تیزی آسکتی ہے۔
ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ ہم سب وبائی بیماری کے ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں ، جہاں اب بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا باقی ہے۔ ہمیں اگلے 6 سے 12 ماہ تک اپنی کارکردگی پر توجہ دینی ہوگی ، جو کہ ایک مشکل وقت ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی ہمیں انفیکشن پر قابویا وبا کو جڑ سے مٹانے کے لیے طویل مدتی منصوبے پر بات کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ ویکسین سے بننے والی امیونٹی اور کورونا انفیکشن سے بننے والا قدرتی قوت مدافعت کم از کم آٹھ ماہ تک رہتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ، ہم زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کلیٹ کرتے ہیں۔
علاج کے پروٹوکول پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ ‘لوگوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایک غلط دوا کاغلط وقت پر استعمال کرنے سے انہیں فائدے سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑ سکتاہے ۔ اب عام طور پر استعمال کی جارہی دواؤں کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے ، انہوں نے کہاکہ کوئی بھی بیماری سے نمٹنے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے پروٹوکول کا سہارا لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ B1.617 کورونا کا ایک انتہائی متعدی قسم ہے۔ ویریئنٹرس عام طور سے وائرس کے میوٹیٹ یا ڈیولپمنٹ ورژن ہوتے ہیںاور اس لئے اس کے وائرل جینوم میں تبدیلی ہوتے رہتے ہیں اور یہ بہت عام سی بات ہے ۔ آر این اے وائرس جیسے جیسے ملٹی پلائی ہوتے ہیں یہ وائرس کو اپنی ہی نقل (ریپلیکٹ ) کرنے میں مدد ملتی ہے ۔یہ وائرس میں تھوڑی تبدیلی لاتی ہے ۔ یہ عام طور سے ایک ایرر ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ یہ کسی بھی صورت میں وائرس کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے اب تک ’متغیرات کی تشویش‘ میں چار قسمیں شامل کی ہیں۔ان میں B1.617سب سے نئی ہے ، جو کہ سب سے پہلے بھارت میں پائی گئی تھی اور بعد میں دنیا کے تقریباً 50 ممالک تک پھیل گئی ۔ ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نےکہاکہ B 1.617یقینی طور پر زیادہ متعدی ہے ۔ یہ اصل اسٹرین سے ڈیڑھ سے دو گنا زیادہ متعدی ہوسکتاہے۔ اتناہی نہیں یہ برطانیہ میں پائے گئے B 117 ویریئنٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ، جس نے بھارت کی بھی تشویش بڑھا دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہے کہ کوی شیلڈ یا کوویکسین لینے والے لوگوں میں نئے ویریئنٹ سے انفیکشن ہونے کاامکان کتنا ہے ۔ اسے لے کر ریسرچ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ صرف تسلسل سے ہمیں وہ جانکاریاں نہیں مل پائیں گی، جو ہم چاہتے ہیں۔ اس کے کلینکل پروفائل کے مریض، وبائی امراض اور ٹرانسمیشن ڈیٹا کی بھی سخت ضرورت ہوگی۔ ساتھ ہی کچھ ایسے لوگوں کے ڈیٹا کی بھی ضرورت ہوگی جو انفیکشن کے دوران ویکسینٹ ہوچکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسداں نے کہا کہ ‘موجودہ معلومات کے مطابق ہندوستان میں دستیاب ویکسین کورونا وائرس کے نئے اسٹرین کے خلاف کافی حد تک موثر ہے۔ تاہم کئی معاملوں میں دو خوراک لینے والے افراد بھی انفیکشن سے متاثر ہوچکے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچھ معاملات میں ایسا ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ویکسین 100 فیصد کی حفاظت نہیں کرتی ہے۔ حالانکہ دو خوراک لینے والے زیادہ تر افراد مہلک بیماری سے بچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نہ صرف مسائل کے حل کی وضاحت کی بلکہ متعدد فائدہ مند حکمت عملی کو اپنانے کا مشورہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کرنا بہت ضروری ہے ، کیونکہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہماری زندگی میں صحت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔