لکھنؤ :
کورونا کی وبا سے اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شمشان گھاٹوں پر اب چتاؤں کے لیے لکڑیاں کم پڑنے لگی ہیں۔ مجبوراً لوگوں کو ہندو رسم رواج کو چھوڑ کر لاش کو دفن کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایسے ہی کئی معاملے کانپور – اناؤ کے گنگا کنارے دیکھنے کو ملے۔ ہندی اخبار ’دینک بھاسکر ‘ نے اس کی جانچ کی تو یہ سچ نکالا۔ معلوم چلاکہ یہاں گنگا کنارے گھاٹ پر اب تک ایک ہزار سے زیادہ لاشوں کو لوگ دفن کرچکے ہیں ۔ وہ بھی محض 3 فٹ کی گہرائی میں۔
سطح آب بڑھی تو لاشیں بہنے لگیں گی
کانپور اوراناؤ کے شکلا گنج میں گنگا کنارے کی حالت کافی خوفناک ہوگئی ہے۔ یہاں ہر دوسرے قدم پر ایک لاش کو دفن کیا گیا ہے۔ اگر گنگا کے پانی کی سطح تھوڑی بھی بڑھ گئی توسیکڑوں – ہزاروں لاش بہتی ہوئی ندی میں مل جائیں گی۔ کچھ لوگ تو اس سے انفیکشن بڑھنے کا بھی خطرہ بتا رہے ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان لوگوں کی موت کورونا سے ہوگی اور ان کی لاش ندی میں بہیں گی تو اس کا سنگین اثر عام لوگوں پر پڑے گا۔ ایسا اس لئے بھی کیونکہ کروڑوں لوگوں کے گھر گنگا کا پانی ہی سپلائی ہوتاہے ۔
چتاپر آگ دینے کے مقابلہ دفن کرنا سستا پڑتا ہے
گنگا کنارےلاشوں کو دفناکرنے والوں نے بتایا کہ لاشوں کو چتا پر آگ دینے کے مقابلے میں دفن کرنا زیادہ سستا پڑ رہا ہے ۔ اس لئے بھی بڑی تعداد میں لوگ لاشوں کو دفن کرکے چل جارہے ہیں۔ ان لاشوں کو دفن کرنے کے ساتھ ہی قبر میں نمک بھی ڈال دیا جاتاہے ۔ لاشوں کو دفن کرنے والے لوگ گھاٹ کنارے مچان بنا کر بیٹھے رہتے ہیں۔
لکھنؤ- کانپور میں اپریل میں 5,500 سے زیادہ چتائیں جلیں
میونسپل کارپوریشنوں کی رپورٹ کے مطابق اگر غور کریں تو صرف لکھنؤ اور کان پور میں تقریباً 25 ہزار کوئنٹل لکڑی خریدی جاچکی ہے۔ یہ صورت حال تب ہے جب کانپور آئی آئی ٹی سمیت کئی انسٹی ٹیوٹ نے اپنے یہاں سے مفت لکڑیاں دستیاب کرائی ہیں۔ دونوں شہروں کو ملا کر اپریل کے مہینے میں 5,500سے زیادہ لوگوں کی آخری رسومات ادی کی جاچکی ہیں۔
بجنورسے مانگنی پڑی تھیں لکڑیاں
لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے ذرائع نے بتایا کہ یہاں ایک کروڑ روپے کی لاگت سے تقریباً 16,500کوئنٹل سے زیادہ کی لکڑی بیکونٹھ دھام ، گلالہ گھاٹ اور کالا پہاڑ جیسے شمشان گھاٹوںپر آچکی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر کونسلروں نے خود لکڑی مہیا کرائی ہے۔ میونسپل کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق اپریل میں لکھنؤ میں 3,500 کورونا انفیکیڈ باڈیز جلائی گئی ہیں۔ افسران نے بتایا کہ آس پاس کے اضلاع میں لکڑی نہیں ملی تو کچھ نجی ٹینڈر والوں سے بھی مدد مانگی گئی تھی۔
لکھنؤ کارپوریشن نے آخری رسومات کے لئےمانگے 20 کروڑ روپے
مستقل اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کے لیے لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے کمشنر اجے کمار دویدی کی طرف سے 20کروڑ روپے کا بجٹ بھی مانگا گیا تھا، حالانکہ 7 مئی کو جاری ایک حکم میں سرکار نے واضح کردیا ہے کہ کورونا انفیکشن کی آخری رسومات 15 ویں مالی بجٹ سے ہوگا۔ اس میںایک شخص پر زیادہ سے زیادہ 5ہزار روپے خرچ کرنے کا التزام ہے۔