کورونا نے پہلی لہر میں جنہیں نہیں چھوا ، دوسری لہر میں وہ زیادہ گرفت میں آئے۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) کے شعبہ ایپیڈیمیولوجی کے ڈاکٹر آنند کرشنن کا کہنا ہے کہ تیسری لہر میں بھی ایسا ہی ہوگا ، جو لوگ رہ گئے ہیں ان میں انفیکشن پھیلنے کا زیادہ امکان ہوگا۔ ڈاکٹر کرشنن کے مطابق اس لئے یہ خطرہ گاؤں اور چھوٹے بچوں پر زیادہ ہوگا۔ ڈاکٹر کرشنن کہتے ہیں کہ وائرس کی دو شکلیں ہیں۔ پہلا انفیکشن پھیلائے گا اور دوسرا اس کے ویرئنٹ آئیں گے۔ اس لئے اس کا خطرہ بڑھنے کے امکان ہمیشہ رہتا ہے ۔ سرکار کو ابھی سے توجہ دینی چاہئے۔
ڈاکٹر این کے اروڑا بھی اس قسم کے خدشات سے انکار نہیں کرتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری لہر میں بھی بچوں میں کورونا انفیکشن کی رپورٹ درج ہوئی ہے۔ ڈاکٹر آنند کرشنن کہتے ہیں کہ پہلی لہر میں بھی اس نے بچوں کوگرفت میں لیا تھا ، لیکن معاملے بہت کم تھے۔ اس بار کچھ زیادہ معاملہ کی رپورٹنگ ہوئی ہے۔ یہ اگلی بار زیادہ ہوسکتا ہے۔
میکس ،ویشالی کے کووڈ وارڈ میں کام کررہے ایک ڈاکٹر اشون چوبے کو اپنے چھ مہینے کے بیٹے کے کورونا انفیکشن ہونے کا خدشتہ ہے اس لئے وہ کورونا انفیکشن کو توجہ میں رکھ کر اس کا علاج کررہے ہیں۔ ڈاکٹر اشونی کاکہنا ہے کہ اس بار 45 سے کم عمر کے لوگ بڑی تعداد میں انفیکشن زد میں آئے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس بار کورونا کا نیا ویرئنٹ نوجوانوں کے لیے بھی خطرناک تھا۔
ویکسینیشن سے حفاظت ممکن
ڈاکٹر آنند کرشنن اور ڈاکٹر این کے اروڑا کا کہنا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر سے صرف کورونا ویکسین کا ٹیکہ ہی بچائے گا۔ ڈاکٹر این کے اروڑا کا کہنا ہے کہ تیسری لہر سے قبل ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ ویکسینیشن مہم کو تیزی سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت 216 کروڑ ویکسین کی خوراکوں کے لئے کام کر رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ فائزر کی ویکسین بوسٹر ڈوز آنے کے بعد کووی شیلڈ نے بھی بوسٹر ڈوز کو توجہ میں رکھ کر کام شروع کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے ویکسین تیار کرنے کا کام آخری مرحلے میں ہے۔ ڈاکٹر اروڑہ کا ماننا ہے کہ تیسری لہر کے امکان کے پیش نظر وقت بہت کم ہے اس کےمقابلے میں چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر کرشنن کہتے ہیں کہ ابھی تو سرکار کو پہلے لوگوں کو کم سے کم پہلی ڈوز لگانے اور چھ سے آٹھ ہفتہ کے اندر دوسری ڈوز لگوانے پر خاص توجہ دینی ہوگی، تاکہ تیسری لہر میں کوئی بڑا نقصان نہ ہونے پائے۔ وہ کہتے ہیں کہ نومبر- دسمبر تک تیسری لہر دستک دے سکتی ہے ۔
تیسری لہر کے بعد چوتھی ، پانچویں بھی آئے گی ، لیکن خطرہ کم رہے گا
ڈاکٹر کرشنن کہتے ہیں کہ تیسری لہر کے بعد چوتھی ، پانچویں اور چھٹی لہر آتی رہے گی۔ لیکن وہ مہلک نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر کرشنن کہتے ہیں کہ اصل خطرہ دوسری کے بعد تیسری لہر میں رہے گا۔ اس کے بعد ایک بڑی آبادی کا جسم اس وائرس (ہارڈ امیونیٹی) کے طرز عمل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔ کئی ریاستیں ہیں اور موسم سمیت دیگر مسائل ہیں، اس لئے یہاں ایک لہر کے ساتھ کوئی لہر چلتی رہتی ہے،لیکن مجموعی طور پر اسے ایک لہر سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ دوسری لہر جلد ختم ہوجائے گی۔