دہلی میں ٹھیک ووٹنگ سے قبل جے این یو کی مبینہ غیر قانونی تارکین سے متعلق ایک رپورٹ آئی ہے جس میں نہ صرف دہلی میں مسلمانوں کی بڑھتی ابادی پر تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ اس کے اسباب بھی بتائے گئے ہیں جو یہاں کے عام شہریوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف منفی خیالات وشبہات پیدا کرنے کے لیے کافی ہے ـ اس رپورٹ کو بنیاد بناکر بی جے پی نے ایک پریس کانفرس کی جس میں دہلی کی ڈیموگرافی بدلنے کا سارا الزام مسلمانوں کے سر پر ڈال دیا گیا اور رپورٹ میں موجود ایسے بیس علاقوں کا بھی تذکرہ کیا جہاں اس کا زیادہ اثر پڑا ہے ـ اس کی بنیاد مبینہ بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاوؤں کی دراندازی بتائی گئی
رپورٹ میں ‘انکشاف’ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے غیر قانونی نقل مکانی نے دہلی-این سی آر کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ جے این یو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غیر قانونی آباد کاروں کی آمد نے نہ صرف شہر کی آبادی کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس سے وسائل پر دباؤ پڑا ہے اور مجرمانہ نیٹ ورک بھی مضبوط ہوئے ہیں ـرپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو فراہم کردہ سیاسی تحفظات، بشمول ووٹر رجسٹریشن تک رسائی نے انتخابی ہیرا پھیری اور جمہوری سالمیت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ رپورٹ 114 صفحات پر مشتمل ہے جس کا عنوان ہے "دہلی میں غیر قانونی تارکین وطن: سماجی و اقتصادی اور سیاسی نتائج کا تجزیہ”۔
رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ غیر قانونی امیگریشن صحت عامہ کے بحرانوں کے خطرے کو بڑھاتی ہے، کیونکہ مہاجر بستیوں میں زیادہ بھیڑ اور غیر صحت مند زندگی کے حالات متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ میں معاون ہیں۔ "مہاجروں کی موجودگی تباہی کے ردعمل اور بحران کے انتظام کو پیچیدہ بناتی ہے، کیونکہ یہ آبادی اکثر ہنگامی حالات کے دوران سرکاری امدادی کوششوں سے خارج کردی جاتی ہے۔”
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد غیر قانونی امیگریشن کے انتظام کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ مناسب بارڈر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ جے این یو کی رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں جامع امیگریشن پالیسی کی کمی نے غیر قانونی نقل مکانی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا اور مؤثر حل کو نافذ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا آخر دہلی اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ سے عین پہلے ہی یہ رپورٹ سامنے کیوں لائی گئی ـ کیا اس کا مقصد سیاسی ہے یا واقعی مسئلہ کی سنگینی کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے ـ,اگر ہاں تو کیا سچ مچ بنگلہ دیشی اور اور روہنگیائی غیر قانونی طور پر ملک یا راجدھانی میں اتنے بڑے پیمانے پر گھس آیے ہیں کہ انہوں نے سارا جغرافیہ یا ڈیموگرافی کو متاثر کردیا ابھی حال ہی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے حکم پر غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف مہم چلائی گئی تھی اور جھگی بستیوں اور دیگر مقامات پر چھاپے مارے گیے تو کتنے ایسے لوگ ہاتھ آیے ؟اس کے اعداوشمار اتنے ہی ہیں کہ وہ ڈیموگرافی بدل ڈالیں ؟- ایک کمیونٹی کے تعلق سے حکمراں پارٹی کا یہ تبصرہ کرنا کہ "سماجی و اقتصادی محاذ پر تبدیلی آ رہی ہے۔ کم تنخواہ والی نوکریوں میں مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ دہلی میں مختلف ریاستوں کے لوگ آکر کام کرتے تھے۔ دہلی بنانے میں ہمارے پوروانچلی بھائیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی اور روہنگیا دراندازوں نے ان کے کام میں غیر قانونی مداخلت کی۔پارٹی ترجمان سمبت پاترا کا مزید یہ کہنا کہ ، "رپورٹ کے بارے میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں اس کا استعمال کر رہی ہیں۔ خاص طور پر عام آدمی پارٹی کا اس میں اہم رول ہے۔ یہ درانداز وں کو جعلی ووٹرز بنا رہے ہیں جو ہمارے انتخابی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ درانداز ہی جرائم میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔” کیا سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو اس ردعمل کو قبول کرنا چاہیے؟ عام آدمی پارٹی کیا کررہی ہے کیا نہیں اس کا جواب تو وہ دے گی مگر عام آدمی پارٹی کی آڑ میں چھری کس کی گردن پر چلائی گئی ہے وہ صاف نظر آرہا ہے-اس رپورٹ کے بیانیہ سے دہلی کا ہر مسلم ووٹر اور دہلی کا ہر مسلم شہری شک کی زد میں لایا گیا ہے ،خاص طور سے جن علاقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ایک نئی آزمائش کے پل صراط پر لاکر کھڑے کردیے گیے ہیں ـجواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اس رپورٹ کا پس منظر اور مقصد کیا ہے وہ صاف نظر آرہا ہے ،ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی اور ‘تحقیقاتی رپورٹ’پائپ لائن میں ہوں – یہ ایک نیا اور بہت خطرناک بیانہ سیٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہےـمسلمان پہلے ہی بہت ساری آ زمائشوں اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں ، یہ چیلنچ تو سیدھی اس کی شہریت اور انتخابی حق ہر ہی ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہےـ ارباب نظر اس ہر ضرور نظر رکھیں گے