تاثرات:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
دار العلوم (وقف) دیوبند کی حجۃ الاسلام اکیڈمی کے زیر اہتمام مولانا انور شاہ کشمیری پر دو روزہ (13 ، 14 دسمبر 2025) سمینار میں شرکت کرنے کا موقع ملا – مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی کی سرپرستی و سربراہی اور نائب مہتمم ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی کی نگرانی میں دار العلوم (وقف) الحمد للہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے –
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ( 1875–1933ء) دار العلوم دیوبند کے نام ور فضلاء میں سے ہیں – وہ اس کے چوتھے صدر مدرس تھے ۔ 13 سال وہاں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے ۔ پھر بعض اسباب سے دار العلوم دیوبند سے ان کا تعلق باقی نہ رہ سکا تو جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل (گجرات) چلے گئے ، جہاں آخرِ حیات تک تعلیم و تدریس اور تحقیق و تصنیف میں مصروف رہے – مختلف اسلامی موضوعات پر ان کی عربی اور فارسی میں تقریباً دو درجن تصانیف ہیں ، جن میں فیض الباری علی صحیح البخاری ، العرف الشذی شرح سنن الترمذی اور مشکلات القرآن شہرت رکھتی ہیں – ردّ قادیانیت میں وہ بہت سرگرم رہے اور اعلیٰ پایے کی کئی کتابیں تصنیف کیں – ان کا شمار ہندوستان کے عظیم محدثین میں ہوتا ہے –
13 دسمبر کو صبح 9 بجے افتتاحی اجلاس منعقد ہوا – اس کے بعد پہلا اجلاس 12 بجے سے پونے تین بجے تک ، دوسرا اجلاس مغرب کے بعد سے ساڑھے دس بجے شب تک ، تیسرا اجلاس اگلے دن صبح 8 بجے سے 11 بجے تھے اور چوتھا اجلاس اس کے بعد 2 بجے تک منعقد ہوا – کل دو سو گیارہ مقالات موصول ہوئے تھے ، جن میں سے 167 مقالہ نگار شریکِ سمینار ہوئے
اتنی بڑی تعداد میں مقالات ، جب کہ ان کی پیش کش کے لیے صرف 4 اجلاس – چنانچہ کنوینر کو اعلان کرنا پڑا کہ ہر مقالہ نگار صرف تین منٹ میں اپنے مقالے کا خلاصہ پیش کرے – دار العلوم دیوبند ، دار العلوم (وقف) اور دیوبند و اطراف کے مدارس سے تعلق رکھنے والے مقالہ نگاروں سے خواہش کی گئی کہ وہ بہ حیثیت میزبان صرف ایک منٹ میں اپنے مقالے کا خلاصہ بیان کردیں ، بلکہ اگر وہ ڈائس پر آکر صرف اپنی صورت دکھادیں اور اپنے مقالے کا صرف عنوان بتادیں تو اچھا ہے – اندازہ ہوا کہ مقالہ نگار بہت محنت سے مقالے لکھ کر لائے تھے – – دوٗر دراز کی ریاستوں سے بھی تشریف لائے تھے – لیکن انھیں اپنی تحقیقات کو پیش کرنے کے لیے صرف 3 منٹ کا وقت دینا عجیب سا لگا – سمیناروں میں تو مقالات کی پیش کش کے لیے خاصا وقت دیا جاتا ہے اور ان پر ڈسکشن اور مذاکرہ کے لیے بھی وافر وقت فراہم کیا جاتا ہے ، لیکن یہاں صرف مقالہ نگاروں کی روٗنمائی ہورہی تھی اور ان کے مقالات کی خوش بوٗ سنگھائی جارہی تھی – البتہ بار بار یہ اعلان کرکے ان کی تسلّی کی جارہی تھی کہ تمام مقالات شائع ہوں گے تب شائقین ان کا مطالعہ کرلیں گے – مقالات کی کثرت ہو تو متوازی نشستیں منعقد کردی جاتی ہیں – سمینار میں مقالہ نگاروں کے علاوہ دوسرے شرکاء اور مدرسے کے طلبہ بھی شریک تھے – سامعین کی قلّت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ، پھر معلوم نہیں کیوں منتظمین نے متوازی نشستیں نہیں چلائیں؟مقالات پر ڈسکشن کا موقع نہ ہونے کے باوجود بعض باتیں سامنے آئیں – معروف دانش ور پروفیسر محسن عثمانی نے اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ علماء نے بہ شمول مولانا انور شاہ کشمیری حفاظتِ دین کا کام کیا ، لیکن اشاعتِ دین کی انھیں توفیق نہیں ہوئی – انھیں اپنا مقالہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا ( انھوں نے کچھ کاپیاں تقسیم کروادیں) ، لیکن مولانا سلمان بجنوری نے اپنے تاثرات میں اس کا رد کرنا ضروری سمجھا – معروف محقق مولانا نور الحسن راشد نے اظہارِ خیال کیا کہ مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا انور شاہ نے پانچ چھ برس وہاں بھی تعلیم حاصل کی ہے ، لیکن مولانا انور شاہ کے پوتے مولانا احمد خضر شاہ نے اپنے تاثرات میں اس کی قطعی تردید کی – مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر جمعیت اہل حدیث ہند نے افتتاحی اجلاس میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی پر مولانا انور شاہ کی سخت تنقید کو نادرست قرار دیا تو مولانا سلمان جنوری نے دوسرے اجلاس میں اپنے تاثرات میں کہا کہ حضرت نے جو کہا ، درست کہا – مولانا عتیق احمد بستوی سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی نے معروف مصنف مولانا عبد الحلیم چشتی کی یہ رائے نقل کی کہ حضرت کشمیری کا علمی معیار بہت بلند تھا – ان کے امالی مرتب کرنے والے شاگرد اس معیار کے نہ تھے ، اس لیے ان سے تسامحات ہوئے ہیں – اس طرح کی اور باتیں بھی سامنے آئیں – مولانا انور شاہ کشمیری کی نسبت سے ایک بڑا مدرسہ جامعۃ الامام انور کے نام سے دار العلوم(وقف) سے تھوڑے فاصلے پر قائم ہے- اس کے منتظمین نے پہلے دن تمام مندوبینِ سمینار کو عشائیہ پر مدعو کیا اور حضرت کی چند مطبوعات کا تحفہ بھی پیش کیا – سمینار کے منتظمین کی طرف سے بھی اس موقع سے طبع ہونے والی بہت سی کتابیں تحفۃً پیش کی گئیں –







