نئی دہلی 27 دسمبر( نامہ نگار)
غالب انسٹی ٹیوٹ، جو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند کے زیرِ سرپرستی کام کرتا ہے، اپنی انتظامی پالیسیوں کی وجہ سے اردو دوستوں اور ادب کے شائقین کو مایوس کر رہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کا مقصد اردو کے فروغ کے ساتھ عوام کو اردو ادب سے جوڑنا ہے، لیکن اب یہ اپنے بنیادی مقاصد سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
آج جب کہ اردو کے قارئین و سامعین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی سرگرمیوں میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم، انسٹی ٹیوٹ کی غلط پالیسیوں نے خود اردو کے شائقین کو دور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں سیمینار ہال کی نصف سے زائد کرسیاں اکثر خالی رہ جاتی ہیں۔ انسٹیٹیوٹ کی ایک پالیسی جسے اسکالرز بالعموم تذلیل کا باعث سمجھتے ہیں، وہ ہے سیمینار کے دوران صدر دروازے کو مقفل کرانا۔ اس پالیسی نے کئی اردو دوستوں کو سیمیناروں میں شرکت سے محروم کر دیا ہے۔
دہلی یونیورسٹی کی اسکالر محترمہ خوشبو پروین نے نامہ نگار کو بتایا کہ پچھلے دنوں وہ اپنی چھوٹی بچی کو ہسپتال میں دکھانے کے بعد وہاں سے ڈھائی سو رپے میں آٹو کر کے سیمینار میں شرکت کے لیے سیدھے غالب انسٹی ٹیوٹ پہنچی، اس کی وجہ سے ذرا تاخیر ہو گئی۔ لیکن انھیں بھی دروازہ بند ملا، دربان سے درخواست کے باوجود دروازہ نہیں کھولا گیا اور انہیں مایوس واپس جانا پڑا، اس واقعے سے انھیں ایسی ذلت محسوس ہوئی کہ اب وہ وہاں کسی بھی پروگرام میں شرکت نہیں کرتیں۔
صحافی، ناقد اور ایکٹیوسٹ ڈاکٹر شاہد حبیب نے بتایا کہ وہ ایک مصروفیت کے سبب پچھلے سیمینار کے ایک سیشن میں قدرے تاخیر سے (تقریباً 1 بجے) پہنچے تو دروازہ بند دیکھ کر حیرت ہوئی۔ دربان سے وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ڈائریکٹر کا حکم ہے۔ ڈاکٹر شاہد نے ڈائریکٹر کو کال کر کے صورت حال سے آگاہ کیا اور دروازہ کھولنے کی گزارش کی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے تاخیر کا حوالہ دے کر دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر شاہد نے اس مسئلے پر ڈائریکٹر کو ایک خط بھیجا، جس میں انہوں نے کہا کہ اگر انسٹی ٹیوٹ کو مالی مسائل کا سامنا ہے تو ہم جیسے اردو دوست ڈونیشن دینے کے لیے تیار ہیں لیکن انھیں اس خط کا جواب اب تک نہیں ملا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق اسکالر مصطفیٰ علی نے نامہ نگار کو بتایا کہ ایک ریسرچ اسکالرز سیمینار کے دوران انھیں بھی گیٹ بند ملا اور انھیں ڈائریکٹر کو کال کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا پڑا۔ ڈائریکٹر نے گیٹ تو کھلوا دیا، لیکن پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقامی افراد کو روکنے کے لیے کرنا پڑتا ہے جو لنچ کے وقت مسائل پیدا کرتے ہیں۔ مصطفیٰ علی نے کہا کہ "اس ہتک آمیز پالیسی کی وجہ سے سنجیدہ سامعین اور ریسرچ اسکالرز بہت برا محسوس کرتے ہیں، اور جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے وہ دوبارہ وہاں کے کسی پروگرام میں جانا نہیں چاہتے۔ اگر انھیں یہی پالیسی اپنانی ہے تو چاہیے کہ وہ اپنے اشتہار میں گیٹ بند ہونے کا متعینہ وقت بھی لکھ دیں۔ کوئی اپنا روپیہ اور وقت صرف کرکے وہاں کھانے نہیں جاتا، انسٹیٹیوٹ کو اسکالرز کے تئیں اپنی یہ گھٹیا سوچ بدلنی چاہیے۔ اگر مسئلہ مقامی لوگوں کا کھانے کے وقت آنا اور کھاکر چلے جانے کا ہے تو آئی کارڈ چیک کرنے کا اصول اپنانا چاہیے اور جو بھی شعبۂ تعلیم سے جڑا شخص ہو اسے داخلہ دے دینا چاہیے، مقامی لوگوں کا مسئلہ اس طرح آسانی سے حل ہو جائے گا-"
دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد فرقان نے کہا کہ صدر دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ کئی اہم مقالہ نگاروں کے سیشنز میں شرکت نہیں کر پاتے اور استفادے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق، غالب انسٹی ٹیوٹ کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ سامعین کی تعداد میں کمی کے اس رجحان کو روکا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کو ایک منظم پالیسی اپنانی چاہیے، مثلاً اپنے ویب سائٹ پر پہلے ہی پروگرام کا رجسٹریشن کرائیں اور پروگرام کے وقت پہنچنے والوں کے لیے بھی رجسٹریشن کھلا رکھیں اور دونوں طرح کے لوگوں کو کارڈ مہیا کریں، تاکہ لوگ کارڈ دکھا کر آئیں جائیں، اس طرح تاخیر سے پہنچنے پر بھی سنجیدہ سامعین اور شعبۂ تعلیم سے جڑے لوگوں کو داخلے میں دقت نہیں ہوگی۔ ان اقدامات سے تمام شائقین کو اپنی سہولت کے مطابق سیمینار میں شرکت کا موقع ملے گا اور سامعین کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔