کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہا ہے یا ایران کے گھٹنے ٹیکنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہ سوالات یمن میں ایران کے پراکسی حوثیوں پر امریکی حملے کے بعد اٹھائے جا رہے ہیں۔ حوثیوں نے طویل عرصے سے بحیرہ احمر میں جہاز وں اور اسرائیل کے خلاف حملے شروع کر رکھے ہیں، جن کے یمن میں اڈوں پر امریکہ نے شدید بمباری کی ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی عزائم یمن سے بہت آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے حکمت عملی سازوں نے امریکہ کے اس فیصلے کو ایڈہاک قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو غیر منظم قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا واحد مقصد جوہری معاہدے کے لیے ایران کو گھٹنے ٹیکنا ہے اور اس کے لیے وہ اسرائیل کو یمن، شام اور لبنان پر حملے کے لیے آزادانہ طور پر اقدامات کر رہی ہے۔،ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیل کو ایرانی اہداف پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ کسی اور امریکی انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جب اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ غزہ پر بمباری شروع کی تو ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر بنجمن نیتن یاہو کا ساتھ دیا۔ جس کا واضح مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا اور اپنی پراکسی تنظیموں پر دباؤ ڈال کر ایران کو گھٹنے ٹیکنا ہے۔
حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی دھمکی کو سچ ثابت کر دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران نے رول بیک نہیں کیا اور اپنی جوہری ترقی کو نہ روکا اور اگر یہ ملک ایٹم بم بنانے کی دہلیز پر پہنچ گیا تو امریکا اور اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر تباہ کن حملے کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقیں کرکے پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس فوجی مشق میں امریکی B-52 بمبار طیاروں نے حصہ لیا جو زیر زمین سینکڑوں فٹ گہرائی میں ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی مشق میں اسرائیل کے F-15I اور F-35I طیاروں نے حصہ لیا ہے، جس کا مقصد واضح ہے کہ یہ مشق ایران پر حملے کی ریہرسل تھی۔
حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انتباہ کی توثیق کر دی ہے کہ اگر ایران نے اپنی جوہری ترقی کو نہ روکا اور اگر یہ ملک ایٹم بم بنانے کی دہلیز پر پہنچ گیا تو امریکا اور اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر تباہ کن حملے کر سکتے ہیں۔