تحریر:کلیم الحفیظ-نئی دہلی
جمہوری نظام میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں پر ایک کمزوری بھی ہے ۔اس کی خوبیوؓ کا ذکریں تواس نظام میں عوام کو اپنی پسند کی حکومت بنانے کا اختیار ہے،ہر پانچ سال میں اسے موقع ملتا ہے،اپنی بات کہنے کی آزادی ہے ،حکومت پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے،اگرچے تنقید کے دروازے رفتہ رفتہ بند کیے جارہے ہیں ،اس کے باوجود بھی انصاف پسند آوازیں اٹھتی رہتی ہیں،جمہوری نظام کے علاوہ دوسرے نظامہائے مملکت میں یہ خوبیاں نہیں ہیں۔لیکن اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے اکثریت کی پسند کے خلاف امیدوار جیت جاتا ہے۔حالیہ پانچ ریاستوں میں جو الیکشن ہوئے ہیں۔ وہاں کل 60سے 70فیصد پولنگ ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ ایک تہائی لوگوں نے اپنی کوئی رائے ہی نہیں دی ۔ڈالے گئے ووٹوں میں بھی بیشتر مقامات پر تین سے زائد امیدوارشریک ہوئے ۔اگر جیتنے والے کو نصف ووٹ بھی ملیں گے تب بھی وہ کل ووٹ کا 50فیصد سے کم ہی رہ جائے گا۔جب کہ زیادہ تر سیٹوں پر فاتح امیدوار کونصف ووٹ سے کم ووٹ ہی حاصل ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی خرابی ہے جو اس نظام کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔اس کمزوری کی وجہ سے کم تعداد میں ووٹ لینے والا اکثریت پر حکومت کرتاہے۔جب کہ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی مرضی کی حکومت قائم ہو۔اس نکتے پر الیکشن کمیشن کے ذمہ داران کو ضرور توجہ دینا چاہئے۔کوئی ایسا لائحہ ٔ عمل ضرور بنانا چاہئے کہ سو فیصد پولنگ ہو اور جیتنے کے لیے کم سے کم ساٹھ فیصد ووٹ حاصل کیے گئے ہوں۔بعض ممالک میں اس قسم کا نظام بنایا بھی گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کو حکومت میں حصے داری نہیں ملتی اور وہ مسلسل پسماندگی کی طرف دھکیلی جاتی رہی ہیں۔
حالیہ پانچ ریاستوں کے انتخابات پر امن طریقے پر مکمل ہوگئے ،جس کے لیے الیکشن کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے۔اتنی بڑی آبادی والے دیش میں پر امن پولنگ کرادینا بھی کسی کمال سے کم نہیں ہے۔کَل نتیجے بھی آجائیں گے۔نتائج سے پہلے ایگزٹ پول ہم سب کے سامنے ہے۔زیادہ تر ایگزٹ پول میں پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور منی پور اور اتر پردیش میں بی جے پی کی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کا دعویٰ کیا جارہا ہے،آج تک نے تو یوپی میں 326سیٹیں تک بی جے پی کی جھولی میں ڈال دی ہیں۔اتراکھنڈاورگوامیں کانٹے کی ٹکر دکھائی جارہی ہے۔یہ اگزٹ پول خود گودی میڈیا کا ہے۔لیکن بعض دوسرے ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی اتر پردیش میں بھی اپنی موجودہ سیٹوں میں سے سو سے زیادہ سیٹیں گنوا رہی ہے۔مثال کے طور پر اکنامکس ٹائمس،زی نیوز کے مطابق یوپی میں بی جے پی کو 246سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔وہیں انڈیا نیوز اور انڈیا ٹی وی کے مطابق یہ تعداد 180سے 220تک ہے۔نیوز ایکس کے مطابق بی جے پی کو صرف 211سیٹیں حاصل ہوں گی۔دیش بندھونے اتر پردیش میں سماج وادی گٹھ بندھن کی حکومت بننے کی بات کہی ہے۔ابھی یہ اندازے ہی ہیں،حتمی نتائج کے لیے کچھ گھنٹے صبر کرنا ہی ہوگا۔مغربی بنگال،بہار اور تاملناڈو کے انتخابات کے موقع پر ہم ایگزٹ پول کا حشر دیکھ چکے ہیں۔چونکہ میڈیا کا نناوے فیصد حصہ گودی میڈیا ہے اس لیے وہ وہی بات بولے گا جو ان کے آقا چاہیں گے ۔لیکن زمینی حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔
الیکشن کے نتائج جو آئیں گے وہ قبول کیے جائیں گے۔نتائج کے بعد تمام پارٹیاں اپنا جائزہ بھی لیں گی ۔ایک ایک سیٹ کے اعدادو شمار ملیں گے۔اس کے بعد آئیندہ کے لیے پالیسی طے کی جائے گی۔اترپردیش کا انتخابی ماحول حکمراں پارٹی کے خلاف تھا،پورا مغربی اتر پردیش سماج وادی گٹھ بندھن کے ساتھ کھڑا تھا۔مسلمانوں نے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کو بھی اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازا،لیکن محبت کرنے کے باوجود بعض سیٹوں پراسے صرف اس لیے ووٹ نہیں کیا کہ کہیں دوبارہ بی جے پی نہ آجائے۔مجلس کے انتخابی جلسوں میں ہزاروں کا مجمع شریک ہواجس نے بیرسٹر اسد الدین اویسی کو اپنا سیاسی رہنما تسلیم کیا لیکن اس نے بعض مقامات پر مصلحت کی خاطر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ کیا۔میں اترپردیش کے مسلمانوں کے خلوص پر شک نہیں کرتا،انھوں نے مجلس ،علماء کونسل،پیس پارٹی کے مقابلے نام نہاد پارٹیوں کو زیادہ ووٹ کیا۔اس کے بعد بھی اگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنی عزت بچانے میں ناکام رہیں گی جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ تو یہ ان کے لیے سوچنے کا مقام ہوگا۔
اتر پردیش کے الیکشن میں مسلمانوں نے جو رول ادا کیا وہ قابل اطمینان ہے۔مجلس کی موجودگی سے یہ الیکشن مذہب کے نام پر پولرائز نہیں ہوا۔اسدا لدین اویسی صاحب کی تقریروں نے مسلمانوں کے دلوں سے خوف نکال کر ان میں جوش ،ہمت اور حوصلہ پیدا کیا۔انھوں نے ظالموں کے خلاف کھڑے ہوکر نئی نسل کو ایک راہ دکھائی ۔پیس پارٹی کا ساتھ دے کر اتحاد امت کا پیغام دیا۔دلت اور اوبی سی قیادت سے گفتگو کرکے مظلوموںکو قوت گویائی دی ۔یہ مجلس کی بڑی کامیابی ہے ۔اس لیکشن سے بڑی تعداد میں مسلم لیڈر شپ پیدا ہوئی جس کو آئیندہ تربیت دے کر کام کے لائق بنایا جاسکتا ہے۔یہ نتائج ان شاء اللہ مسلمانوں کو نیند سے بیدار کرنے کا کام کریں گے۔ان کی آنکھوں پرسے پردہ ہٹائیں گے ۔انھیں اس غلطی کا احساس کرائیں گے کہ کاش ہم اپنی قیادت کو مضبوط کرتے ،اس لیے کہ جس سیکولرزم کو مسلمان اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں ،اس کو برادران وطن کبھی کا اتار کر پھینک چکے ہیں۔یہ نتائج مسلم قیادت کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنی صفوں میں مزیداتحاد پیدا کریں اور مستقبل کے لیے کوئی متحدہ سیاسی پلیٹ فارم بنائیں۔یہ نتائج بتائیں گے کہ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے تنظیمی ڈھانچہ کتنا ضروری ہے۔اس لیے کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت کی تمام ناکامیوں کے باوجود اگر بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو یہ اس کی تنظیم کا کمال ہوگا۔میں ہمیشہ یہ بات کہتا رہا ہوں کہ آر ایس ایس کے کیڈر کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اسی طرح کا کیڈر دوسری طرف موجودنہ ہو۔
اتر پردیش کے مسلمانوں نے گزشتہ پانچ سال یوگی جی کے راج میں گزارے ہیں۔انھیں ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے،البتہ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے،منتخب نمائندوں سے اپنے حقیقی مسائل حل کرانے کے ہنر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ضمیر اور ایمان فروشی کو ترک کرنے کی ضرورت ہے،نااہلوں کو مسند صدارت و نظامت سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔دنیا دار الاسباب ہے۔یہاں عمل پر نتیجہ نکلتا ہے۔مسلمانوں کو اپنی حیثیت پہچاننے کی ضرورت ہے ۔وہ صرف ایک قوم نہیں ہیں ،بلکہ خیر امت اور داعی گروہ ہیں۔ان کی قسمت کے فیصلے اس پیغام سے وابستہ ہیں جس کے وہ امین ہیں۔اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے۔نتیجوں سے نیتوں کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔اگر کسی نے اتر پردیش کے مسلمانوں اور مظلوموں کو سیاسی قیادت دینے کی کوشش کی تھی ،اپنی انتھک محنت کے باوجوداگر وہ ناکام ہوتا ہے تب بھی وہ کامیاب ہے ۔آخرت میں اجر سیٹوں کی گنتی پر نہیں بلکہ نیتوں کے اخلاص پر منحصر ہے۔ناکام وہ شخص نہیں جو اذان دے رہا تھا ،بلکہ ناکام وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی اذان کے وقت اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔الیکشن پھر آئیں گے ،اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع پھر ملے گا۔اس لیے مسلم قیادت والی سیاسی جماعتوں اور وہ سیاسی جماعتیں جو فاشزم کے واقعی خلاف ہیں ان کو چاہئے کہ بغیر رکے اپنا اگلا سفر شروع کردینا چاہئے ۔
میں اپنا خون دے کر مطمئن ہوں
گلستاں میں بہار آئے نہ آئے