خراج عقیدت ۔۔مظفر اللہ خان( رامپور)
آج اظہر عنایتی کے ایک شعر کے دوسرے مصرعہ سے اپنے اس مختصر مضمون کا اغاز کر رہا ہوں کیونکہ یہ شعرعابد رضا بیدار کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتا ہے ۔اج بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کی سب سے عظیم ادبی اور انسانیت نواز شخصیت اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھ کر اخری منزل کے لیے روانہ ہو چکی ہے ۔عابد رضا بیدار کا انتقال نہ صرف ادبی دنیا کا بہت بڑا خسارہ ہے بلکہ انسانیت اور اقدار کا یہ بلند ترین روشن مینار بھی ہم سب کو چھوڑ کر وہاں چلا گیا جہاں اپنے اپنے معینہ وقت پر ہم سب کو جانا ہے ۔ عابد رضا بیدار کئی جہات میں پورے بر صغیر میں سب سے اہم شخصیت تھے ۔وہ اج کل مروجہ کسی ادبی لابی سے منسلک نہیں تھے ۔اس لیے ان کے جیسا بلند قامت شخص ادبی دنیا کے مروجہ اعلی’ ایوارڈوں میں سے کوئی ایوارڈ بھی حاصل نہیں کر سکا جبکہ بونوں نے اپنے خیال سے چمکتے دمکتے ان ایوارڈوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے ۔لیکن ادبی دنیا میں جو بلندی عابد رضا بیدار کو حاصل ہوئی ہے یہ بونے اس کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے ۔وہ تقریبا ایک برس سے علی گڑھ میں اپنی بیٹی ڈاکٹر شائستہ بیدار کے یہاں بستر علالت پر تھے ۔ان کی بیٹی نے یہ چاہا کہ ان کی زندگی میں ہی ان پر ایک کتاب زیور طباعت سے اراستہ ہو کر ادبی دنیا کے سامنے ا سکے ۔لیکن ہماری قوم مردہ پرست ہے ۔وہ زندوں کی ستائش کو کبھی گوارا نہیں کرتی ،ڈاکٹر شائستہ بیدار نے ہماری ادبی دنیا کے بڑے چمکتے دمکتے چہروں ، عابد رضا بیدار سے اپنی رفاقتوں کا تذکرہ کرتے نہ تھکنے والوں ،اردو دنیا کے محققین ،مصنفین ،دانشوران ،چمن سر سید کے فرزندگان سے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ تحریری اور زبانی اصرار کر کے بیدار صاحب پر مضمون لکھنے کی گزارش کی لیکن چند مخلصین کے علاوہ اردو ادب کے ان خود ساختہ دانشوران نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ ہی کیا ۔اور اخر کار بیدار صاحب جو کبھی بھی اپنی تعریف سننے کے روادار نہیں تھے ،قدرت نے ان کی مدد کی اور وہ کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اس سراۓ فانی سے کوچ کر گئے۔اب مردہ پرست لوگ اپنے نام چھپوانے کے لیے بیدار صاحب سے اپنے تعلقات کہ ڈنکے پیٹتے ہوئے کل سے اخبارات اور رسائل کے صفحات پر ہمیں نظر ائیں گے ۔یونانی زمرے کی طبی خدمات کی معروف ترین کمپنی ہمدرد کے بانی حکیم عبدالحمید انسانی شخصیات کے معاملے میں جوہر شناس تھے ۔وہ عبد رضا بیدار کو ایک نگینے کی طرح رکھتے تھے ۔بیدار صاحب نے حکیم عبدالحمید کی شخصیات پر کئی جلدوں میں اردو اور انگریزی میں کتابیں لکھی ہیں جو ملت کا بہت بڑا سرمایہ ہے ۔ایک طرف انہوں نے خدا بخش لائبریری کو ایسی لائبریری بنا دیا جس سے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے طول و عرض سے انے والے محققین کو یہاں أکر نخلستان کا احساس ہوتا تھا ۔ ان محققین کے لیے انہوں نے لائبریری کی جانب سے بہت سی سہولیات کا نظم کیا تھا ۔ہندوستان کے دیگر کتب خانوں میں محققین کے ساتھ جس سرد مہری کا برتاؤ ہوتا ہے اسی کے پیش نظر میں نے خدا بخش لائبریری کو نخلستان سے تشبیہ دی ہے ۔وہ بلند قامت شخصیات بر صغیر سے اہستہ اہستہ اٹھتی جا رہی ہیں جنہوں نے علم و عمل اور رواداری کی ایسی روشن مثالیں چھوڑی ہیں جو اہستہ اہستہ بجھتی جا رہی ہیں ۔ اب مضمون کے عنوان کا مکمل شعر سنیے” اس راستے میں جب کہیں سایہ نہ پائے گا،یہ اخری درخت بہت یاد ائے گا "۔۔۔