ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اورمعاشی اصلاحات کے معمار ڈاکٹر منموہن سنگھ نہیں رہےـ۔ بتایا جاتا ہے کہ سانس لینے میں دشواری کی شکایت کے بعد انہیں دہلی ایمس لایا گیا تھا۔ اور متعدد محکموں کی ٹیمیں ان کی صحت کی نگرانی کر رہی تھیں، لیکن انہیں بچایا نہیں جا سکا۔دہلی ایمس نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ منموہن سنگھ کو رات 8:06 بجے اسپتال لایا گیا تھا۔ انہیں آئی سی یو میں رکھا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ انہوں نے 92 سال کی عمر میں رات 9 بج کر 51 منٹ پر آخری سانس لی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے ایکس پر لکھا کہ ہندوستان اپنے سب سے ممتاز رہنماوں میں سے ایک ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے انتقال پر سوگوار ہے۔ ایک عام خاندان سے اٹھ کر وہ ایک مشہور ماہر اقتصادیات بن گئے۔ وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے، جن میں وزیر خزانہ کا عہدہ بھی شامل ہے، اور انہوں نے گزشتہ برسوں میں ہماری اقتصادی پالیسی پر ایک مضبوط چھاپ چھوڑی۔منموہن سنگھ2004سے2014تک ملک کے وزیر اعظم رہے اور طوفانی سیاسی حالات میں دس سال تک ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالا انہوں نے 2008 میں معاشی کساد بازاری کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا تھا۔ پوری دنیا نے ان کی صلاحیتوں کا لوہا تسلیم کیا تھا۔ منموہن سنگھ ہندوستان کے وزیر خزانہ اور فنانس سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران معیشت کو ترقی دینے میں ان کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ منموہن سنگھ آر بی آئی کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ان کی وفات کی خبر نے ہندوستان بھر میں گہرے غم کی لہر دوڑا دی۔کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت، بشمول پرینکا گاندھی، بھی ایمس دہلی میں ان کی حالت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے پہنچی تھیں
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سیاسی زندگی میں ان کی ایمانداری اور اصولوں کی پیروی نے انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا۔ ان کا کردار نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سیاست میں بھی اہم تھا۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے عالمی اقتصادی بحرانوں کے باوجود ترقی کی اور کئی اہم عالمی اداروں میں ہندوستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وفات کے بعد ان کے خاندان کے افراد، دوستوں اور تمام مداحوں کے لیے یہ ایک سخت آزمائش ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کی رہنمائی کا اثر آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوگا۔ ان کا انتقال ہندوستان کی سیاست اور معیشت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے، جس کا خلا بھرنا مشکل ہوگا۔