خراج عقیدت:نازش احتشام اعظمی
ہندوستان کی آزادی کے بعد اس کی معیشت کئی دہائیوں تک ایک مخلوط ماڈل پر مبنی رہی، جس میں اہم صنعتوں پر ریاست کا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ ماڈل خود انحصاری کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ ماڈل غیر مؤثر اور غیر لچکدار ثابت ہوا۔ ہندوستان کی تاریخ میں 1991 کا سال نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک نہ صرف ایک گہرے معاشی بحران کا شکار تھا بلکہ اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے تھے، افراطِ زر عروج پر تھا، اور معاشی نظام ایک گہرے جمود کا شکار تھا۔ ایسے میں ہندوستان نے ایک ایسا فیصلہ کن قدم اٹھایا جو نہ صرف اس کی معیشت بلکہ اس کے مستقبل کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ یہ قدم تھا معاشی اصلاحات کا، جنہوں نے ہندوستانی معیشت کو ایک نئی سمت دی اسے عالمی معیشت کا اہم حصہ بنا دیا۔
اس تبدیلی کے پیچھے جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا، ان میں سب سے نمایاں نام منموہن سنگھ کا ہے۔ اماہرِاقتصادیات کے طور پر ان کی دوراندیشی اور وزیرِ خزانہ کے طور پر ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے ہندوستان کو بحران سے نکالنے کے ساتھ ساتھ ترقی کے ایک نئے دور میں داخل کیا۔ ان کے اقدامات نے ہندوستان کی سیاسی اور معاشی تاریخ میں ایک انقلاب کر دیا۔ یہ اس عہد کی کہانی ہے جب ہندوستان نے اپنی بند معیشت کے دروازے کھولے اور ترقی، عالمگیریت، اور جدت کے راستے پر گامزن ہوا۔ یہ ایک ایسے لیڈر کی کہانی ہے جس نے غیر یقینی حالات میں جراتمندانہ فیصلے لیے اور اپنے ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آیا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی یہ جدوجہد نہ صرف معاشی بحران سے نجات کی ایک داستان ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جب کوئی قوم تبدیلی کو گلے لگاتی ہے تو وہ ناممکنات کو ممکن بنا سکتی ہے۔ ان اصلاحات کے اثرات آج بھی ہندوستان کی معیشت، سیاست اور سماج میں نمایاں ہیں اور یہ ایک سبق کے طور پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ جراتمند فیصلے کس طرح ایک قوم کے مقدر کو بدل سکتے ہیں۔
*معاشی بحران: اصلاحات کی ضرورت*
آزادی کے بعد، ہندوستانی معیشت کا ڈھانچہ تحفظاتی پالیسیاں اور سخت ضابطوں پر مبنی تھا۔ اگرچہ اس کا مقصد خود انحصاری اور مساوات تھا، لیکن 1980 کی دہائی تک یہ ماڈل غیر پائیدار ثابت ہوا۔ معیشت کو مندرجہ ذیل بڑے چیلنجز کا سامنا تھا:
1. *ادائیگیوں کا بحران*: 1991 تک ہندوستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے تھے، جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔
2. *مالی خسارہ*: حکومتی اخراجات اور قرضوں کی بھرمار نے معیشت کو کمزور کر دیا تھا۔
3.*افراطِ زرمہنگائی بڑھنے سے شہریوں کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی تھی۔
4. *معاشی جمود*: معیشت کی شرحِ نمو تقریباً 3.5 فیصد سالانہ تک محدود تھی، جسے اکثر "ہندو ترقی کی شرح” کہا جاتا تھا۔
یہ حالات معاشی اصلاحات کا تقاضا کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے منموہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ مقرر کیا، جنہوں نے ہندوستان کو بحران سے نکالنے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔
*منموہن سنگھ کےایک نئے دور کا آغاز
منموہن سنگھ کی قیادت میں 1991 کی معاشی اصلاحات نے ہندوستان کو لبرلائزیشن، نجکاری، اور عالمگیریت کے راستے پر ڈال دیا۔ ان کے اقدامات نے روایتی معاشی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا۔
1. *لبرلائزیشن* لبرلائزیشن نے معیشت پر حکومتی کنٹرول کم کیا اور مسابقت کو فروغ دیا
– *صنعتی پالیسی میں تبدیلی*: لائسنس راج ختم کر دیا گیا، جس نے کاروبار کرنے اور پھیلانے کے عمل کو آسان بنایا۔
– *غیر ملکی سرمایہ کاری*: غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) کے دروازے کھول دیے گئے، جس سے جدید ٹیکنالوجی اور وسائل ہندوستان آئے۔
– *ڈی ریگولیشن*: ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ، اور ہوا بازی جیسے شعبے نجی سرمایہ کاری کے لیے کھولے گئے، جس سے جدت اور مسابقت بڑھی۔
2. *نجکاری* نجکاری نے حکومتی کنٹرول محدود کیا,معیشت میں نجی شعبے کا کردار بڑھایا:
– *سرکاری اداروں کی فروخت*: غیر منافع بخش سرکاری اداروں کے شیئرز فروخت کیے گئے۔
– *پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP)*: بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں نجی شعبے کی شمولیت سے ترقی کی رفتار تیز ہوئی۔
3. *عالمگیریت*
ہندوستان کو عالمی معیشت کا حصہ بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے:
– *تجارتی اصلاحات*: درآمدی ڈیوٹیز کم اور تجارتی پابندیاں ختم کی گئیں۔
– *زرِ مبادلہ کی اصلاحات*: روپے کی قیمت مارکیٹ کی طلب و رسد پر چھوڑ دی گئی، معیشت مستحکم ہوئی
– *برآمدات کی حوصلہ افزائی :خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) قائم کیے گئے، جنہوں نے برآمدی صنعتوں کو فروغ دیا۔
*سیاسی اثرات اور چیلنجز* منموہن سنگھ کی معاشی اصلاحات نے ملک میں نہ صرف ترقی کا ایک نیا باب شروع کیا بلکہ سیاسی منظرنامے کو بھی بدل دیا:
1. *معاشی ترقی اور سیاسی جواز*
ان اصلاحات کی بدولت ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شامل ہو گیا۔ اس کامیابی نے منموہن سنگھ کی ساکھ کو مضبوط کیا، اور وہ عملی حکمرانی کی علامت بنے۔
2. *مزاحمت اور مخالفت* معاشی اصلاحات کو سیاسی اور سماجی سطح پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مزدور یونینوں اور اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا کہ یہ اقدامات امیروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور غریبوں کے مسائل بڑھا رہے ہیں۔
3. *مرکز اور ریاستوں کے تعلقات*
لبرلائزیشن کے بعد ریاستیں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے مسابقت کرنے لگیں، مرکز اور ریاستوں کے درمیان اختیارات کی نئی تقسیم دیکھنے میں آئی۔
*اصلاحات کے طویل مدتی اثرات*
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اقدامات کے اثرات گہرے اور دور رس تھے:
1. *معاشی ترقی:اصلاحات سے پہلے ہندوستان کی شرحِ نمو 3.5 فیصد تھی، جو اصلاحات کے بعد 7-8 فیصد تک پہنچ گئی۔
2. *متوسط طبقے کا عروج:معاشی ترقی نے ایک متحرک متوسط طبقے کو جنم دیا، جس کی خصوصیات بہتر معیارِ زندگی، زیادہ قوتِ خرید، اور جدید طرزِ زندگی ہے۔
3. *اہم شعبوں کی ترقی* انفارمیشن ٹیکنالوجی*: ہندوستان دنیا کے آئی ٹی مرکز کے طور پر ابھرا۔
– *مینوفیکچرنگ*: مقامی پیداوار کو فروغ ملا، خاص طور پر "میک ان انڈیا” جیسے پروگراموں کے تحت۔
– *خدمات کا شعبہ*: ٹیلی کمیونیکیشن اور بینکاری جیسے شعبے تیزی سے ترقی کرنے لگے۔
4. *عالمی انضمام* ہندوستان عالمی تجارت کا ایک اہم حصہ دار بن گیا، خاص طور پر سافٹ ویئر اور دواسازی کے شعبوں میں۔
*چیلنجز اور تنقید:ان کامیابیوں کے باوجود، معاشی اصلاحات کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا:
– *آمدنی کی غیر مساوات*: اصلاحات کا زیادہ تر فائدہ شہری علاقوں اور متمول طبقے کو ہوا، جبکہ دیہی علاقوں میں ترقی کی رفتار کم رہی۔
– *بے روزگار ترقی*: اگرچہ جی ڈی پی بڑھی، لیکن روزگار کے مواقع اس کے مطابق پیدا نہیں ہوئے۔
– *درآمدات پر انحصار*: کم تجارتی پابندیوں کےسبب بعض شعبے درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگے۔
*منموہن سنگھ کا ورثہ* منموہن سنگھ کا معاشی وژن ہندوستانی سیاست اور معیشت میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ پی ایم کی حیثیت سے بھی انہوں نے اصلاحات کو جاری رکھا:
– *دیہی روزگار اسکیمیں*: نریگا جیسے پروگراموں نے دیہی علاقوں میں روزگار فراہم کیا۔
– *گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST)*: جی ایس ٹی کی بنیاد رکھی گئی، جو بعد میں ایک اہم ٹیکس اصلاحات بنی۔
– *بنیادی ڈھانچے کی ترقی*: سڑکوں، ریلوے، اور توانائی کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اقدامات نے ہندوستانی معیشت اور سیاست کو نئی سمت دی۔ ان کی اصلاحات نے نہ صرف ہندوستان کو بحران سے نکالا بلکہ اسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کر دیا۔ اگرچہ ان اصلاحات نے نئے چیلنجز پیدا کیے، لیکن ان کی میراث آج بھی ہندوستان کی ترقی کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ منموہن سنگھ کا وژن ایک ایسا ہندوستان پیش کرتا ہے جو ترقی اور مساوات کو ساتھ لے کر چلتا ہے، اور یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔