بنگلہ والی مسجد جو مرکزنظام الدین کے نام سے معروف ہے اس پر گذشتہ ایک سال سے تالہ پڑا ہوا ہے۔22مارچ کو لاک ڈائون کے تناظر میں مرکز اور مسجد کو بند کردیاگیا تھا اس حقیقت کے باوجود کہ دہلی میں تمام شاپنگ مالس تھوک اور رٹیل مارکیٹ کئی ماہ پہلے ہی کھل گئی تھیں اور کورونا کی تیسری لہر کے باوجود بڑی چہل پہل ہے یہاں تک کہ ریلوے اور ہوائی سروسز کو بھی بحال کردیاگیا۔ میٹرو دوبارہ پٹریوں پر دوڑنے لگی ہے۔ چھوٹے بڑے ریسٹورٹ‘فائیو اسٹار ہوٹل اپنے مہمانوں کا استقبال کر رہے ہیں۔ تمام مذہبی مقامات بشمول مندر،گردوارے،مساجد،گرجا گھر احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی اجازت ہے۔ لیکن مرکز نظام الدین کے مرکزی دروازے پر اب بھی بڑا سا تالہ لگا ہوا ہے۔ کسی زمانہ میں یہ دہلی کی مصروف ترین جگہ تھی اس کی تعمیر95برس قبل مولانا الیاس کاندھلوی نے کی تھی۔
معروف انگریزی پورٹلIndia Tomorrow.net کے مطابق مسجد سے منسلک محمدیحییٰ نے بتایا کہ مسجد کے پچھلے حصہسے صرف مستورات گیٹ سے ان سات افراد کے لئے ضروری سامان لے جانے کی اجازت ہے جو مرکز آفس میں رہ کر اس کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں۔ نماز جمعہ بھی صرف سات افراد ہی پڑھ سکتے ہیں۔
تبلیغی جماعت کے حضرت نظام الدین حلقہ کے ذمہ دار محمد اشرف عطار والا کاکہنا ہے کہ صرف سات افراد کوہی مسجد اور مرکز کے آفس میں رہنے کی اجازت ہے ۔مقامی انتظامیہ نے مسجد کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن باہر سے کسی کو بھی نہیں۔ یہاں تک کہ مقامی لوگوں کو بھی نہیں۔مسجد کے قریبی محلہ میں رہائش پذیر افراد تک کو کسی بھی مقصد کے لئے مسجد کے احاطہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جس میں نماز بھی شامل ہے۔ محمد اشرف کے مطابق یہ سلسلہ 22 مارچ 2020 سے جاری ہے جب پولیس اور لوکل افسروں کے حکم پر مسجد بند کردی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسجد کھولنے کے لئے حکام سے رجوع کیاتھا مگر اسے کھولنے میں کچھ وقت لگے گا۔جبکہ حضرت نظام الدین سمیت آس پاس کی تمام 46مساجد دوبارہ کھل گئی ہیںجن میں نماز جمعہ اور پنچوقتہ اجتماعی نماز ہو رہی ہے۔
کووڈ 9کے حوالہ سے تبلیغی جماعت کے مقدمای لڑنے والے ایڈوکیٹ فضیل ایوبی کہتے ہیں بنگلہ والی مسجد کا معاملہ دیگر مساجد سے قدرے مختلف ہے یہ تبلیغی جماعت کامرکزبھی ہے جہاں ملک بھر سے لوگ آتے ہیں قیام بھی کرتے ہیں ۔مزید یہ کہ ابھی تک دہلی میں کسی بھی کالج ویونیورسٹی کواجتماعی کلاس چلانے کی اجازت نہیں ہے یہ دو وجوہات ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے انتظامیہ مسجد کوازسرنو کھولنے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں لے سکی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کم از کم نماز کے لئے تو اسے کھول دیناچاہئے۔ بھلے ہی کورونا کے خطرے کے پیش نظر تبلیغی جماعت کو وہاں قیام کی اجازت نہ دے۔
مقامی لوگوں کا شکوہ ہے کہ دہلی کے تمام بھیڑ والے مصروف ترین باز جیسے صدر بازار اور قرول باغ کھولنے کی اجازت دی جاسکتی ہے دکانوں والے تمام مالس ریلوے خدمات شروع ہوسکتی ہیں تو پھر تبلیغی مرکز اور مسجد کو دوبارہ نہ کھولنے کی کیاوجہ ہے ۔لگتا یہی ہے کہ کوئی اور وجہ ہے جو بتائی نہیں جاتی۔
(بشکریہ:India Tomorrow.net)