تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
بھارت کے آئین کے باب 3میں بنیادی حقوق کے تحت کئی بنیادی امور شامل ہیں، صرف ضمیر کی آزادی کا معاملہ نہیں ہے جیسا کہ عارف محمد خاں اپنی خود اختراعی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں ، دفعہ 25 سے شروع ہونے والے امور کا عنوان ہی ’مذہب کی آزادی کا حق ‘ہے، تو آئین کی روح و مقصد ،شہریوں کے بنیادی حقوق، مذہبی آزادی اور پرسنل لاءکا تحفظ ہے نہ کہ آئین کے نام پر مذہبی احکام پر عمل اور متعلقہ آزادی کو ختم کرنے کی مذموم سعی کی جائے، جس سے مسلم ،غیر مسلم دونوں میں بھٹکاؤ کی راہ ہموار ہو ، بنیادی حقوق والے باب کے تحت واضح طور سے کہا گیا ہے کہ مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو اس حصہ سے عطا کیے ہوئے حقوق چھین لے یا ان میں کمی کر دے۔
قانون میں رواج یا رسم ، جس کا بھارت کا علاقہ میں قانون کا اثر ہو ،شامل ہے۔ آئین میں قبائیلی روایات و مراسم کو بھی اہمیت دی گئی ہے ، اس تناظر میں حجاب کا معاملہ سماجی رسم ،رواج سے زیاد تفوق رکھتا ہے ، پردے کا مسئلہ قرآن و سنت ، اجماع ، قیاس مجتھد اور امت کے عملی توارث سے ثابت شدہ ہے،اس سلسلے میں عارف محمد خاں جیسے سیاسی عناصر کا علم و تحقیق کے نام پر منحرف و غلط نظریہ پیش کر کے مسئلے کو گمراہ کن رخ دینا سراسر شرارت اور شر انگیزی کی شرپرستی کرنے کے ہم معنی ہے، میڈیا پر جس طور سے عارف محمد خاں کی گمراہ کن یلغار اور اس سے بہت سے لوگوں کا متاثر ہونے کے خد شے کے پیش نظر کچھ باتیں لکھنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ اس سلسلے کی تشویش والی بات یہ ہے کہ مغالطہ انگیز استد لال کو کچھ میڈیا گروپ بے مثال، علم و تحقیق کا عنوان دے کر پیش کر رہے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عارف محمد خاں محنتی آدمی ہیں ،اور اپنے منحرف موقف کی تقویت کے لیے یہاں وہاں اور غیر متعلق باتوں کو بڑی مہارت سے مربوط انداز میں پیش کرتے ہیں ، جس سے اصل ماخذ سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے کچھ افراد غلط کو صحیح سمجھ لیتے ہیں ، اس طرح کے مخصوص طرح کے تبصرے کا واحد مقصد،ا کثرت میں خود کو سامنے لانے اور روشن خیال ، آئین پسند باور کراتے ہوئے سیاسی مفادات کا حصول ہے ، ورنہ شاہ بانو کے معاملے اور ایس سی قانون، جلی کٹو اور شبریمالا کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملاً کالعدم قرار دینے کے اقدامات قطعاً مختلف نہیں ہیں پھر تفریق کرنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ۔
ہندواکثریتی فرقے اور کسی دیگر غیر مسلم کمیونٹی سے متعلق کسی مسئلے پر جذبہ حق پرستی کا اظہار، آزار کیوں بن جاتا ہے ، متعلقہ شرعی مسائل و امور کا کافی وضروری علم کے بغیر ان کے متعلق مجتھدانہ انداز میں اظہار ارائے کرکے کوئی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں ، و ہ ایک ہی مسئلے میں مختلف و متضاد باتیں کر کے کچھ حلقے میں جگہ بنا لیتے ہیں ، انھیں بڑی دقت ہے کہ طبقہ علماءعموماً عوام و حکومت میں قابل تو جہ واثر بن جاتا ہے ، بڑی حیر ت ہے کہ عربی کے عام الفاظ اور عام فہم قرآنی الفاظ کے صحیح معانی جانے بغیر کوئی ذمہ دار آدمی ان کے متعلق اظہار خیال کی جسارت و جرات نہیں کر سکتا ہے۔ بڑی غلطی یہ ہے کہ شرعی اصطلاحات اور عملی توارث کو نظر انداز کر کے محض الفاظ اور لغوی معانی سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور الفاظ کے فرق اور اس پر مبنی بر اصطلاحات ، شرعی مسائل کے الگ الگ درجے اور احکام کو یکساں سطح پر رکھ کر دیکھا جاتا ہے ،ستر اور حجاب دونوں ایک نہیں بلکہ الگ ہیں ، جن افراد سے پردہ نہیں ہے ، ان میں سے شوہر کے سوا دیگر کے سامنے بے ستر ہونا حرام ہے ، اس لحاظ سے پردہ کرنے کا جو مفہوم و معنی اور عملی اطلاق و انطباق کی شکل ہے، مختلف طریقے سے مختلف کپڑوں کے ذریعے کیا جاتا ہے ، اردو ،فارسی میں جسے پردہ کہا جاتا ہے ، اسے ہی عربی میں حجاب کہا جا تا ہے ۔
مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب پردہ کا عربی تر جمہ معروف عربی ادیب مولانامسعود عالم ندوی ؒ نے ا لحجاب کے نام سے کیا ہے ، اردو سے عربی اور عربی سے اردو کی تمام کتب لغت میں پردہ کا ترجمہ حجاب کیا جاتا ہے اس لیے پر دہ سے انحراف و انکار کے لیے یہ کہنا کہ پر دہ ،حجاب کے معنی میں یا حجاب معروف پردہ کے معنی میں نہیں پایا جاتا ہے اور نہ استعمال ہوتا ہے ، سراسر نا سمجھی اور ذہنی فساد و فتور کی علامت ہے ، اسی طرح اوڑھنی، کوجلباب پر ڈال لینے کی بات کرنا سراسر عربی زبان اور قرآنی الفاظ کے استعمال سے بے خبری کی علامت ہے۔ قرآن نے اوڑھنی کو بے پردگی سے بچنے کے لیے گریبان پر ڈال لینے کی ہدایت و حکم دیا ہے ، یعنی خمار (اوڑھنی )کو جیوب (گریبان)پر ڈالنے کے لیے کہا ہے نہ کہ خمار کو جلباب پر ،جیسا کہ عارف محمد خاں نا سمجھی و کم علمی کی وجہ سے مختلف چینلوں اور یوٹیوب نیوز پورٹلوں پر مسلسل بڑی دیدہ دلیری سے پیش کر رہے ہیں ، قرآن مجید میں کہیں بھی اوڑھنی کو جلباب پر ڈالنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے ۔
بڑی حیرت و تشویش کی بات ہے کہ ایک ذمہ دار منصب پر رہ کر ، آن کیمرا، غیر ذمہ داری سے ایک شرعی مسئلے اور آئین کے عطا کردہ حق آزادی کو غصب کرنے کی راہ ہموار کر کے ہندو تو وادی فرقہ پرست عناصر کے ساتھ کھڑا کر لیتا ہے ، پردہ، حجاب ایک متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اختلاف صرف اس کے حدود اور چہرہ،ہتھیلی، قدم کا پردہ کرنے ، نہ کر نے کے متعلق ہے ۔اس اختلاف کی حالت میں شدت پسندی کوئی راست رویہ نہیں ہے ، جلباب کے لفظی و لغوی معنی یقیناً عربی کتب لغت میں ،لمبا کرتااور القمیص بھی ہے ، لیکن قرآن میں اسے خاص طرح کے کپڑے، بڑی چادر کے معنی میں استعمال کیا ہے جسے اوپرسے نیچے تک لٹکا لیا جاتا ہے، اسی لیے تمام ترجمہ نگاروں نے جلباب کا ترجمہ (بڑی )چادر کیا ہے ، جسے عورت اپنے لباس پر بہ طور پردہ لٹکا لیتی ہے ۔ زینت ، آرائش کو قرآن نے ظاہر کرنے سے جس طورسے منع کیا ہے ۔ اس کا مقصد ومطلب پردہ ہی ہے ،مختلف مواقع پر (مثلاًمارکیٹ کی نگرانی )مختلف حضرات صحابیہ ،کئی طرح کی خدمات دیتی تھیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام اور خدمات انجام دیتے وقت ضرورتاً،چہرہ، ہتھیلیاں ،پیر کھلا رکھتی تھیں۔ آج بھی خواتین ایسا کرسکتی ہیں ،انھوں نے بے پردگی کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی حسن کو خدا کا عطیہ قرار دے کر اس کی نمائش کی۔
اس سلسلے میں عارف محمد خاں نے پاک باز، پارسا، خوش دل ،عائشہ بنت طلحہ کی جو کہانی فلپ،کے حتی کی کتاب History of The Arabs سے طبری کے حوالے سے بیان کی ہے وہ پوری طرح من گھڑت اور گانے بجانے والے کی بے ہودہ گوئی ہے ، یہ واقعہ ابن جریر کی تاریخ طبری میں بالکل نہیں ہے ۔ گانے بجانے کی کتاب،آلا غانی کا حوالہ شرعی و قانونی معاملے میں انتہائی غیر سنجیدہ حرکت ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ من گھڑت کہانی سے اپنی موقف کو تقویت دینے والے، شرعی و قانونی دلائل سے نابلدونا واقف ہیں ، ایسا کر کے وہ پردہ کے مسئلے میں اپنے چہرے کو بے نقاب کرنے کا کام کر رہے ہیں ،تاکہ اچھی طرح پہچان لیے جائیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)