تحریر: محمد برہان الدین قاسمی
علمائے کرام اور مفتیان عظام کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ مسائل پر از سر نو دینی احکام کادارومدارشرعی دلائل کے مد نظر ان مسائل کی اہمیت، نوعیت، زمان و مکان اور عوام پر مثبت یا منفی اثر انداز ہونے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس لئے قابل اور تجربہ کار مفتیان کرام مسائل کی حساسیت اور مجموعی طور پر عوام میں جانے والے پیغام کا خیال کرتے ہوئے دلائل کی روشنی میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے پوچھے گئے سوالات کے جوابات ترتیب دیتے ہیں۔حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ابنائے قدیم کے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں دیکھا جس پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ سوال کے متن اور پھر قابل مفتیان کرام کے جواب نے راقم الحروف کو بھی تبصرہ کرنے پر آمادہ کیا ورنہ عموماً وہاٹس ایپی بحث سے اجتناب کر تا ہوں۔ قارئین کی سہولت کے لئے استفتاء اور فتویٰ کے متن ذیل میں کاپی پیسٹ کئے دیتا ہوں:
’’متفرقات‘‘دیگر
سوال نمبر: 606644
عنوان: آن لائن دینی تعلیم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سوال:
حضرت آج کل ایک نیا سلسلہ شروع ہواہے، آن لائن تعلیم کا جسے کچھ مدارس نے مجبوراً وقتی طور پر اختیار کیا، پر کچھ حضرات نے جو مدارس سے ہٹ کر ہیں اپنا ذاتی یہ سلسلہ باقاعدگی سے شروع کر دیا ہے اور اب تخصصات کی تعلیم بھی آن لائن شروع کر دی گئی ہے، یہاں تک کہ اب آن لائن قاضی بنانے کا کورس بھی شروع ہو چکا ہے ،اور کچھ وقت تک قضات کی تعلیم آن لائن پڑھنے کے بعد پڑھنے والے کو قاضی کا لقب دے دیا جاتا ہے ، تو کیا تخصصات کی ایسے آن لائن تعلیم دینا صحیح ہے؟ کیا ایسے قاضی کی تعلیم آن لائن حاصل کرکے کوئی شخص قاضی بن سکتا ہے؟ کیا ایسے قضات کی تعلیم آن لائن دے کر قاضی بنانا، قضات کے عہدے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ سوال کا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب نمبر: 606644
بسم الله الرحمٰن الرحيم
Fatwa : 209-157/B=03/1443
آن لائن کی دینی تعلیم دیانةً معتبر نہیں، شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ رہنا اور استاذ کے سامنے بیٹھنا ضروری ہے، بہت سے مسائل کا آن لائن سمجھنا ممکن نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند
(یہ فتویٰ 21 ؍اکتوبر 2021 کو www.darulifta-deoband.com میں اپ لوڈ کیا گیا ہے۔)
قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ مندرجہ بالا سوال میں سائل اصل میں آن لائن قاضی بنانے، کچھ دن آن لائن پڑھا کر قاضی کی سند دینے اور پھر اس طرح قاضی بننا معتبر ہے یا نہیں کے بارے میں دارالعلوم کے مفتیان کرام کا موقف جاننا چاہا ہے، لیکن مستفتی نے اپنے مضمون کے شروع میں مدارس کی آن لائن تعلیم کا بھی ذکر کیا ہے، نیز اس سوال و جواب کا عنوان ’آن لائن دینی تعلیم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘ لگایاگیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے قابل مفتیان کرام نے جواب دیا کہ’’آن لائن کی دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں، شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ رہنا اور سامنے بیٹھنا ضروری ہے… “
یہ جواب عمومی نوعیت کا ہے اور لگتا ہے معزز مفتیان کرام کے ذہن میں حالات اور موجودہ تقاضوں کے تمام صورتحال موجود نہیں تھے اس لئے یہ جواب مناسب نہیں لگ رہا ہے۔ سوال میں مذکور آن لائن قاضی بنانے والےخاص پہلو کو جواب میں جگہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سےجواب کمزور اور سطحی لگ رہا ہے، نیزدینی تعلیم کی تعبیر سوال میں موجود نہیں ہے جس کو جواب میں اضافہ کر کے پورے مسئلہ کو ہی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ جس سے دارالعلوم کے تعلق سے عوام میں غلط پیغام جارہا ہے اورامت کے لئے مزید مسائل پیدا ہورہا ہے۔ وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر غور فرمائیں!
1 – آن لائن دینی تعلیم میں چھوٹے بچوں کو قاعدہ بغدادی سے لے کر قرآن ناظرہ اور حفظ تک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مکتب اور مدارس کی بنیادی تعلیم شامل ہے جس پر کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے وقت کسی نہ کسی حد تک بشمول ہندوستان دنیا بھر میں عمل کیا گیا اورمزیدبرآں یہ کہ کچھ مغربی ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر مسلمان بچوں کے لئے یہ نظام تعلیم کافی پہلے سے عام ہے۔ نیز آج دنیا بھر سے اور خاص کر مغربی ممالک سے ہزاروں لوگ جن میں مرد و خواتین شامل ہیں، ڈائریکٹ یا پہلے سے ریکارڈ شدہ آن لائن مواد سے دینی تعلیم یعنی قرآن کی سورتیں، نماز کے طریقے، دینی مسائل یہاں تک کہ دعوت دین کو قبول کر کے ہر ضروری دینی معلومات کو آن لائن ہی حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج بہتوں کے پاس آن لائن دینی تعلیم کے علاوہ کوئی دوسرا معقول اور سہل ذریعہ ہی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ آن لائن تعلیم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے انسان علم حاصل کرسکتا ہے، چاہے وہ عبارت ہو، تصویر ہو، آواز ہو یا ویڈیو ہو، پہلے سے ریکارڈ اور اپلوڈ کیا ہوا ہو یا لائیو ہو۔ دارالعلوم کی فتوے والی ویب سائٹ خود آن لائن دینی تعلیم کا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں سے لاکھوں صارفین دینی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اسی لئے مجموعی طور پر مفتیان کرام کا یہ کہنا کہ آن لائن دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں درست نہیں لگتا۔
2- ’’شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ ہونا اور سامنے بیٹھنا ضروری ہے‘‘ یہ بات بھی میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے۔ استاذ اور شاگرد کے جسمانی طور پر آمنے سامنے ہونا افہام و تفہیم کے لئے بہتر، تعلیم و تعلم کا اعلیٰ طریقہ ہے، یہ بات سمجھ میں تو آتی ہے لیکن کسی فتویٰ میں جب لفظ ضروری استعمال ہو تو اس کو اچھی طرح سمجھنا بھی ضروری ہے کہ آیا یہ شرعی طور پر ضروری ہے یا ضروری کا لفظ کسی اور معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مذکورہ صورتیں شرعی طور پر ضروری ہیں تو پھر کیا اس کے علاوہ صورتوں میں انسان گناہ کا مرتکب سمجھا جائے گا؟
3 – یہ بات مسلم ہے کہ افتاء اور قضاء و غیرہ کی تعلیم بہت سنجیدہ، محنت کش اور عملی مشق نیز مسائل کو بار بار سمجھنے اور سمجھانے سے تعلق رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ ان خصوصی علوم کے لئے مخصوص اور تجربہ کار اساتذہ کے ساتھ ساتھ بہترین اور محنتی طلباء کا بھی باقاعدہ مدارس میں ایک نظام کے تحت انتخاب کیا جاتا ہے، اس لئے ان اہم کورسیز کی تعلیم دنیا میں بہت سارے دوسرے علوم اور کورسیز کی طرح آن لائن نہ تو معقول ہے اور نہ مناسب۔ پریکٹیکل علوم کی تعلیم عموماً آن لائن ذرائع سے بہت مشکل ہے اور ان میں بہرحال کمی رہ جاتی ہے۔ کوئی شخص اگر محض پیسے یا نام کے لئے ہر چیز کو آن لائن ممکن کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ شخص اس چیز کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کررہا ہے، نیز اس طرح کی چیزوں سے جو لوگ بھی کم پیسے اور کم محنت سے مستفید یا سند حاصل کر رہے ہیں وہ بھی آن لائن دھوکہ دہی اور چیٹنگ کے شکار ہورہے ہیں۔
4- تجربات، تحقیق اور نتائج سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آن لائن تعلیم، آف لائن تعلیم کا متبادل یا برابر نہیں ہے۔ اگر سہولیات موجود ہوں تو بہر صورت مروجہ طریقہ تعلیم اور آف لائن کلاس سسٹم ہی بہتر اور کارآمد طریقہ تعلیم ہے. پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لئے آن لائن تعلیم صرف اس شکل میں جہاں آف لائن کی سہولت نہ ہو، بچوں کو علم کے ساتھ جوڑے رکھنے کی حد تک، کامیاب اور مفید ہے۔ البتہ سمجھدار بچوں اور بڑوں کے لئے کچھ مخصوص کورسیز، متعدد وجوہات کی بنا پر، آن لائن بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آن لائن کورسیز یا تعلیم کی اپنی مخصوص حیثیت اور افادیت ہے اور اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے محض ناواقفیت کی بنیاد پرآن لائن تعلیم یا آن لائن موجود علمی مواد سے استفادہ کو عموماً غلط کہنا امت کے ساتھ صریح نا انصافی ہوگی۔ البتہ کچھ لوگوں پر اگر آن لائن، آن لائن کا بھوت سوار ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے آن لائن نکاح کو جائز کروا دیا اسی طرح آن لائن بچے بھی پیدا کروا دیں گے، تو یہ ان حضرات کی خام خیالی ہے، یہ ناممکن امر ہے اور یہ کسی جدید ٹیکنالوجی سے پاگل پن کی حد تک متاثر ہونے جیسی سوچ ہے۔ڈیجیٹل موجودگی جسمانی موجودگی جیسی کبھی بھی نہیں ہوسکتی، یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اسی لئے آن لائن کلاسیز، آف لائن کلاسیز جیسے کبھی بھی نہیں ہوسکتے، یہ ایک دوسرے کے متبادل نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔
مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی عظمت و مرتبت سر آنکھوں پر اور آج یہ حقیر جو کچھ بھی ہے اس میں والدین کے بعد اسی مادرعلمی کی تعلیمی، تعمیری اور تربیتی شخصیت سازی کارفرما ہے، اس کے باوجود دارالعلوم کے فتوے میں موجود تعبیر ’’آن لائن کی دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں… ‘‘ میرے خیال سے نظر ثانی کا متقاضی ہے۔
(بشکریہ: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی )