واشنگٹن :
کورونا وائرس کے سبب پوری دنیا میں اب تک 34 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان جاچکی ہے ، اس خطرناک وائرس کے پھیلنے سے کوئی ملک نہیں بچا ہے۔ اسی درمیان ایک امریکی سائنسداں نے دنیا کو انتباہ دیا ہے کہ کووڈ 19-کی مبدا(اصلیت) کا پتہ لگانا صروری ہے ،بصورت دیگر آنے والے وقت میں کووڈ26-اور کووڈ 32-بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔
امریکی میڈیا کمپنی بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق وائرس کی مبدا کے معاملے کو کو لے کر امریکہ کے دو ماہرین نے بڑی وارننگ دی ہے ۔ ماہرین نے اتوار کو کہا کہ دنیا کو کووڈ 19-کی مبدا کا پتہ لگانے اور مستقبل میں وبا کے خطرات کو روکنے کے لیے چینی سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ یا تو کووڈ 19-کی مبدا کا پتہ لگائیں یا پھر کووڈ 26-اور کووڈ 32-کے لیے تیار رہیں۔
اسکاٹ گاٹلیب نے کہا کہ یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ SARS-CoV-2 وائرس کیا وہان لیب میں تیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وہان لیب سے کووڈ کا وائرس لیک ہونے کے نظریہ کو پختہ کرنے والی جانکاری میں اضافہ ہواہے۔ ساتھ ہی چین نے اس نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے ثبوت بھی نہیں دئے ہیں۔ گاٹلیب امریکہ کی ڈونلڈٹرمپ حکومت میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے کمشنر تھے۔ اب وہ فائزر کے بورڈ ممبر ہیں۔
ٹیکساس میں چلڈرن ہاسپٹل سینٹر فار ویکسین ڈیولپمنٹ کے کو- ڈائریکٹر پیٹر ہائٹس کا کہنا ہے کہ دنیا کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ جس طرح سے کورونا پھیلا ہے اس سے مستقبل میں بھی وبائی بیماریوں کےپھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ان الزامات کی تحقیقات کے لئے جنوری میںایک ٹیم چین بھیجی تھی لیکن چین نے اصل اعداد وشمار نہیں دیا۔ اب ایک بار پھر مانگ ہو رہی ہے کہ جانچ دوبارہ کرائی جائے ۔ برطانیہ کی سرکار کے ایڈوائزرس اور کیمبرج یونیورسٹی میں کلینکل مائیکرو بایولوجی کے پروفیسر روی گپتا نے بھی ٹیلی گراف سے کہاکہ لیب لیک تھیوری کی تہہ تک نہیں پہنچا گیا ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونان کی کان میں مزدوروں کو بیمار ہونے کے بعد چین کے وائرسولوجسٹوں کی چار ٹیموں نے وہاں سے نمونے لئے اور انہیں 9 وائرس ملے جنہیں وہان لیب بھیجا گیا۔ ان میں سے ایک RaTG13تھای جو SARS-CoV-2سے 96.2فیصد ملتا تھا۔ اس کے اور کووڈ 19-پھیلانے والے کورونا وائرس کے بیچ میں صرف 15 میوٹیشن کا فرق تھا۔